Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مولانا آ رہے ہیں

اگر آپ الٹے قدموں بھاگ رہے ہوں تو ضروری نہیں کسی رکاوٹ سے ٹکرا کر ہی گریں، ایسی حالت فرار میں آپ اپنے بوجھ سے بھی منہ کے بل گر سکتے ہیں۔ 
بڑی دلچسپ صورت حال ہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان بار بار اپنی پریس کانفرنسز اور ٹویٹس میں یہ فرما رہی ہیں کہ مولانا حلوہ کھانے کے شائق ہیں اور اسی سیاسی حلوے کی تلاش میں عازم اسلام آباد ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب مسئلہ یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن حکومت کے گرانے کو حلوے کی طرح سہل سمجھ رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے اپنے آزادی مارچ کا کراچی سے آغاز کر دیا ہے۔ افراد کی گنتی کا کس کے پاس وقت ہے لیکن مولانا کے مخلص کارکنوں کی ایک بہت بڑی تعداد سامنے تھی۔ 
مولانا کے استقلال میں آزادی مارچ کے پہلے اور آغاز تک رتی برابر فرق نہیں ہے۔ وہ اسی خود اعتمادی کے ساتھ حکومت کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مولانا کے مطالبات استعفے تک محدود نہیں ہیں وہ انتخابی اصلاحات بھی چاہتے ہیں اور نئے انتخابات بھی ان کے مطالبات کا اہم جزو ہیں۔
مولانا کو راستے میں لگی رکاوٹیں یا کارکنوں کی گرفتاریاں، ان کے حوصلے پست نہیں کر رہیں۔ وہ اپنے اصولی موقف پر قائم ہیں۔ ابھی تک انہوں نہ کوئی مذہبی بنیادوں پر نعرہ لگایا ہے نہ کسی کو کافر قرار دیا ہے۔ وہ جمہوریت کی بات کر رہے ہیں۔ سول سپریمیسی کا مطالبہ کر رہے ہیں، وہ جمہوری اقدار کی بات کر رہے ہیں۔ 


وزیر دفاع پرویز خٹک کا کہنا ہے کہ معاہدے کے تحت آزادی مارچ کے شرکا شہر کے وسط یا ریڈ زون کا رخ نہیں کریں گے۔ فوٹو: فائل

دوسری جانب حکومت سراسیمگی کا شکار ہے۔ اس کے ہر اقدام سے خوف جھلکتا ہے۔ اپوزیشن کو کنٹینر دینے کا وعدہ کرنے والے اب جگہ جگہ کنٹینر لگا کر راستے بند کر رہے ہیں۔ میڈیا پر ایک سو چھبیس دن کے دھرنے کی ایک ایک لمحے کی کوریج سے مستفید ہونے والے اب  پابندیاں لگا رہے ہیں۔ 
پیمرا کبھی مولانا کے جلسوں کی کوریج کو روکتا ہے کبھی مولانا کے انٹرویو والے پروگرام چلنے نہیں دیتا۔ کبھی اینکرز کی دوسرے پروگراموں میں شرکت کی  پابندی لگاتا ہے کبھی چینلوں میں سے آواز غائب ہو جاتی ہے۔ کبھی مولوی کفایت اللہ کو گرفتار کر کے پر اسرار مقام پر پہنچا دیا جاتا ہے کبھی حافظ حمد اللہ کی شہریت ہی منسوخ کر دی جاتی ہے۔ 
 کبھی مولانا کو انڈین لابی کا حصہ قرار دیا جاتا ہے کبھی کرپشن کے الزامات لگتے ہیں۔ 
اس سارے کھیل میں مولانا کو نواز شریف کی مکمل تائید حاصل ہے۔ نواز شریف کو جہاں بھی موقع ملتا ہے وہ مولانا کی ہلہ شیری کرتے ہیں، چاہے وہ جیل میں پارٹی رہنماؤں سے ملاقات ہو، نیب کی گرفتاری سے پہلے کا مرحلہ ہو یا پھر ضمانت کے بعد ہسپتال میں شدید بیماری میں کوئی بیان ہو۔ 
شہباز شریف مصلحت پسند ہیں لیکن پھر بھی مسلم لیگ ن کا جی ٹی روڈ کا ورکر اگر سڑکوں پر آ گیا تو حکومت کے قدم اکھڑ جائیں گے۔ 
نواز شریف کی صحت کے معاملے پر حکومت نے جس خوف زدگی کا مظاہرہ کیا ہے اسی سے پتہ چلتا ہے کہ معاملات ان کے ہاتھ سے باہر ہو چکے ہیں۔ اب ہر موبائل میں عمران خان کی انتقامی تقریروں کے کلپس موجود ہیں ۔ اب ہر موبائل مِں اپوزیشن کی تضحیک کی وڈیوز موجود ہیں۔ اب ہر موبائل میں جیل میں اے سی اتار لینے کی دھمکی موجود ہے۔
اب ہر موبائل میں مولانا فضل الرحمن کے بارے میں خان صاحب کی تمسخر آمیز کلمات کی وڈیو موجود ہے۔ اب ہر قدم الٹا پڑ رہا ہے۔ اب ہر بات طعنہ بن رہی ہے۔ اب ہر تدبیر تعذیر بن رہی ہے۔
نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن ایک سی بات کر رہے ہیں۔ ایک سی سوچ رکھتے ہیں۔ ایک سے بیانات دیتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے نواز شریف وزارت عظمٰی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور جیل میں اس حالت میں پہنچ گئے کہ جان پر بن گئی اور دوسری جانب مولانا دندناتے پھر رہے ہیں۔
ان  دو شخصیات میں صرف اتنا فرق ہے کہ نواز شریف ایک سیاسی لیڈر ہیں اور مذہبی رہنما نہیں۔  
 حکومت پریشانی کے عالم میں میڈیا پر مکمل کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ زیادہ کچھ کہنے کا وقت نہیں بس اتنی سی بات پر اکتفا کرتا ہوں کہ جب اچانک پیمرا کو صحافتی اقدار کا خیال آ جائے، جب اچانک غیر جمہوری طریقے سے آئے وزرا جمہوریت کا ماتم کرنے لگ جائیں، جب یک دم معشیت برباد کرنے والوں کو سیاسی استحکام کی یاد آجائے، جب ایک دم سے ایک سو چھبیس دن کا دھرنا دینے والوں کو امن عامہ کی صوت حال یاد آ جائے، تو اس بات کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ ’مولانا آ رہے ہیں‘۔

جمیعت علمائے اسلام (ف) کی جانب سے ’آزادی مارچ‘ کا آغاز کراچی سے ہو گیا ہے: فائل فوٹو اے ایف پی

اس موقعے پر حکومت کو کوئی مشورہ دینا کوئی اتنی مفید بات نہیں لیکن اگر استدعا کی جائے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ میڈیا کا گلا اس حد تک نہ دبایا جائے کہ سارے چینل اچانک’مولانا آ رہے ہیں‘ کے گیت گانے لگیں ۔ پھر حکومت کے پاس الٹے پاؤں بھاگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔
اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اگر آپ الٹے قدموں بھاگ رہے ہوں تو ضروری نہیں کسی رکاؤٹ سے ٹکرا کر ہی گریں، ایسی حالت فرار میں آپ اپنے بوجھ سے بھی منہ کے بل گر سکتے ہیں۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: