Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’آسمانی رزق پر ایک آدھ لنگر تو کراچی میں بھی کھل سکتا تھا‘

کراچی والوں کو چاہیے تھا اور کچھ نہیں تو آدھا پونا شعر ہی پڑھ دیتے۔ فائل فوٹو: سوشل میڈیا
پاکستان میں بڑی تبدیلیاں آ گئی ہیں۔ ارے، یہ تو ہم سب کو معلوم ہے کہ تبدیلی 2018 کے الیکشن کے بعد ہی وقوع پذیر ہو گئی تھی،  لیکن یہ مضمون اس تبدیلی کے نتیجے میں حیات پانے والی ایک مخصوص مثال کی افادیت و برکت کو سلام پیش کرنے کی ایک کوشش ہے۔
دراصل، پاکستان کی تاریخ میں اس تبدیلی کی مثال ملنا مشکل ہی نہیں، ڈان کو پکڑنے کی طرح ناممکن بھی ہے۔  ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں آسمان سے رزق برسنے لگا ہے اور وہ بھی ٹڈیوں کو صورت میں۔ ایک کراچی کی خوش قسمت عوام جس پہ ابر کرم دیکھ بھال کر خاص بریانی کے لیے ہی برسا ہے! اور اتنا برسا کہ ایک آدھ لنگر تو کراچی میں بھی کھل سکتا تھا۔

ٹڈی، ٹڈی نہیں، پردیسی پیا ہے۔ سکرین گریب

اگرچہ کراچی کے پڑھے لکھے لوگوں نے اس نادر موقع کا مناسب فائدہ نہ اٹھایا اور بجائے اس کے کہ جال بچھا کر، چوکڑی مار کر، ٹڈیوں کے انمول خزانے کو اکٹھا کرتے اور بقر عید کی روایت کے مطابق فریج اور ڈیپ فریزر ناک و ناک بھرتے تا کہ سال بھر نہیں تو چھ آٹھ مہینے مہنگے گوشت کی خریداری سے بچ جاتے، ان عقل کے ماروں نے مہمان ٹڈیوں کی آمد سے لے کر رخصت کا سارا وقت اپنے گھروں کی چھتوں، گنجے گنجے باغات اور اکا دکا درختوں کی تصاویر کھینچنے میں گزار دیا۔ اور دے دبا دبا کے سوشل میڈیا بھر دیا سارا اپنی ان تصاویر سے۔ لو بھلا بتاؤ! ارے کراچی والو، جب مہمانوں کے انوکھے لاڈلے ہمارے گھر آ کر دو چار گلاس توڑ دیتے ہیں، تو ہم کیا واویلا کیا کرتے ہیں؟ تم بھی نا! 
اب بقول وزیر زراعت، جناب ساہو صاحب، رزق آخر کو ’چل کر آیا تھا۔‘ ایسا کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑا اگر ٹڈیوں نے دو چار زمینداروں کی فصلیں خراب کر دیں؟ یا جھنڈ کے جھنڈ شہر میں آ کر گھڑی بھر کو ٹھہر گئے؟ کھا پی کر آخر ہماری ہی بریانی کی رونق بنتی نہ ہر ایک ٹڈی۔ اب ہم لاہور والوں نے تو تجربے کر رکھے ہیں۔ یہ گدھا ودھا حلیم میں گھل جائے تو اعلی قسم کا مٹن ہی معلوم ہوتا ہے۔ ارے ہمیں بھی کہاں معلوم پڑا؟ یہ تو فوڈ اتھارٹی نے دل اچاٹ کر دیا ورنہ روئی کی لیس اور ’محنتی‘ گوشت کے ریشے سے بنی حلیم تو ہم آتے جاتے کھا لیا کرتے تھے۔ دل جلوں نے تو مینڈکوں کا الزام بھی لگایا مگر سچ بات ہے، مینڈک وینڈک ہم لاہوریوں کے کھلے ڈلے تھالوں میں جچتے نہیں۔ 
سو اب کراچی کی باری۔ وزیر زراعت کا ہے کا؟ وزیر زراعت اگر بیٹھے بٹھائے اناج اور رزق سے متعلق دو چار ترکیبیں نہ گنوا دیں۔ ان کے کہنے سے تو ایسا محسوس ہوا، کہ ٹڈی، ٹڈی نہیں، پردیسی پیا ہے جس کی آمد پہ لاہوری وہاں ہوتے تو کوئی دھمال، کوئی بھنگڑا پروگرام کر لیتے، ورنہ ’گلی میں آج چاند نکلا‘ ٹائپ لڈی ڈال دیتے۔ کراچی والوں کو چاہیے تھا اور کچھ نہیں تو آدھا پونا شعر ہی پڑھ دیتے۔ مثال کے طور پر،  بقول شاعر، ’مے سے، میہنہ سے نہ ساقی سے--- دل بہلتا ہے میرا، آپ کے آ جانے سے!‘ (بشکریہ گووندہ) 
لہذا! من و سلوی کی قدر کیجیے۔ ساہو صاحب کی ترکیبوں کو فالو کیجیے بلکہ کسی کا ٹیوہ لگتا ہو تو انٹرنیٹ پہ ٹڈی کی ’ڈیلیشیس‘ ڈشز کا چینل بھی کھول لیجیے۔ ٹڈی تکہ، ٹڈی بریانی، ٹڈئ کڑاہی، ٹڈی کوفتہ۔۔۔۔ اف! اتنی لذیذ ڈشوں کے نام سے ہی پیٹ میں چوہے دوڑنے لگے ہیں! لیکن چوہے اکیلے ہی کیوں ٹڈیوں کا مزہ لیں؟ ہمارا بھی تو کچھ حق ہے کہ نہیں؟

کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: