Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جے یو آئی کے دھرنے، شاہراہیں بند

خیبرپختونخوا میں چار مقامات پر سڑکیں بند کی گئی ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں جمعیت علمائے اسلام ف نے حکومت مخالف تحریک میں اسلام آباد کا دھرنا ختم کرنے کے بعد ’پلان بی‘ کے تحت ملک کے مختلف مقامات میں دھرنا دے کر شاہراہوں کو بند کر دیا ہے۔
اسلام آباد میں جے یو آئی نے موٹر وے چوک پر دھرنا دیا۔ دھرنے سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری نے خطاب کیا۔
تاہم موٹر وے چوک پر دیا گیا دھرنا مغرب کے بعد ختم کر دیا گیا۔  جے یو آئی کے مطابق کل دن گیارہ بجے دوبارہ دھرنا ہو گا اور موٹر وے چوک پر کارکنان نماز جمعہ ادا کریں گے۔

 

 دوسری جانب جے یو آئی کے کارکنان نے کوئٹہ کو کراچی سے ملانے والی شاہراہ کو خضدار کے مقام پر دھرنا دے کر بند کردیا ہے۔ جبکہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے علاقے حب میں آر سی ڈی شاہراہ پر بھی جے یو آئی کارکنان نے دھرنا دے کر سڑک بند کردی ہے۔
مذہبی جماعت کے احتجاج کے باعث پنجاب کے علاقے تونسہ میں کھڈ بُزدار کا مرکزی پُل بھی بند ہے جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر ہے۔
 اس سے قبل فضل الرحمٰن نے چودھری برادران کے ساتھ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ اگر حکمران پہلے مستعفی ہوتے تو شاہراہوں کو بند کرنے کی نوبت نہیں آتی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے تقریباً تمام بڑی شاہراہوں پر کارکنان اورعوام جمع ہیں۔
فضل الرحمٰن نے کہا کہ کارکنوں کو واضح ہدایت دی گئی کہ مریض، مسافروں، خواتین اور میت وغیرہ کا خاص خیال رکھیں۔

احتجاج کے باعث پنجاب کے علاقے تونسہ میں کھڈ بُزدار کا مرکزی پُل بھی بند ہے جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر ہے۔ فوٹو اے ایف پی

دوسری جانب جمعرات کو جے یو آئی خیبر پختونخوا کے کارکنان نے مانسہرہ کے قریب چھترپلین کے مقام پر شاہراہ قراقرم  کو دھرنا دے کر بند کر دیا تھا۔ تاہم رات گئے تیز بارش کے باعث دھرنے کو کل تک ملتوی کیا گیا۔ جے یو آئی کے مقامی ترجمان کے مطابق دھرنا کل دوبارہ دیا جائے گا اور مولانا فضل الرحمان اس سے خطاب کریں گے۔
 جمعرات کی صبح جے یو آئی بلوچستان کے صوبائی جنرل سیکریٹری و رکن قومی اسمبلی مولانا محمود شاہ اعلان کیا تھا کہ کوئٹہ کو کراچی سے ملانے والی شاہراہ کو خضدار کے مقام پر دوپہر دو بجے کے بعد بند کیا جائے گا جبکہ افغانستان کو پاکستان سے ملانے والی کوئٹہ چمن شاہراہ کو پشین اور قلعہ عبداللہ کے درمیان بند کیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا تھا کہ ’کوئٹہ ڈیرہ غازی خان شاہراہ کو لورالائی یا بارکھان کے قریب ان کی پارٹی کے ارکان بند کریں گے۔ اسی طرح ایران کو پاکستان سے ملانے والی کوئٹہ تفتان شاہراہ پر بھی آمدروفت روکی جائے گی۔‘ 
 
 

آزادی مارچ 27 اکتوبر کو کراچی سے شروع ہوا تھا جس کے خاتمے کا اعلان 13 نومبر کو اسلام آباد میں ہوا۔ فوٹو: اے ایف پی

کوئٹہ سے اردو نیوز کے نمائندے زین الدین احمد کے مطابق چمن، کوئٹہ کراچی، کوئٹہ ڈیرہ غازی خان اور کوئٹہ تفتان شاہراؤں کی بندش سے نہ صرف عام مسافر متاثر ہوں گے بلکہ صوبے میں تجارتی سرگرمیاں بھی معطل ہوکر رہ جائیں گی۔ پھلوں، خشک میوہ جات، روز مرہ کے استعمال کی اشیاءاور تعمیراتی سامان کی زیادہ تر ترسیل انہی شاہراؤں سے ہوتی ہے۔ افغانستان اور ایران سے تجارت کے لیے انحصار بھی انہی سڑکوں پر ہے۔ 
جمعیت علمائے اسلام خیبر پختونخوا کے ترجمان جلیل جان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ صوبے میں چار مقامات پر دھرنے دے کر سڑکوں کا بند کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈویژنل سطح پر احتجاج کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں انڈس ہائی وے کو بنوں ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب بند کیا گیا جبکہ شاہراہ قراقرم کو مانسہرہ بٹل کے مقام پر جے یو آئی کے کارکنوں نے بند کیا ہے۔
جلیل جان کے مطابق دیگر دو مقامات سوات میں چکدرہ چوک اور نوشہرہ میں حکیم آباد کے علاقے میں شاہراؤں پر دھرنا دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’دن گیارہ بجے احتجاج شروع کیا گیا ہے تاہم اس کے خاتمے کا وقت طے نہیں ہے۔‘

جے یو آئی نے  ’آزادی مارچ‘ 27 اکتوبر کو کراچی سے شروع کیا تھا۔ فوٹو اے ایف پی

  خیال رہے کہ  جے یو آئی ف نے دیگر اپوزیشن جماعتوں کی حمایت سے وزیر اعظم کے استعفے اور نئے انتخابات کے لیے ’آزادی مارچ‘ 27 اکتوبر کو کراچی سے شروع کیا تھا۔ آزادی مارچ کا قافلہ 31 اکتوبر کی شب اسلام آباد پہنچا۔
اسلام آباد کے ایچ 9 گراؤنڈ میں آزادی مارچ کے شرکاء نے 14 روز قیام کیا۔ یکم نومبر کو مارچ کے شرکا سے اپنے خطاب میں مولانا نے وزیراعظم عمران خان کو مستعفی ہونے کیلئے 48 گھنٹوں کی مہلت دی تاہم یہ مہلت ختم ہوگئی اور وزیراعظم مستعفی نہیں ہوئے۔
13 نومبر کو مولانا فضل الرحمان نے مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے دھرنا ختم کرکے’پلان بی‘ کے تحت ملک بھر میں سڑکوں کو بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: