Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ریاستی ظلم کی داستان دیوار برلن

دیوار برلن کا منہدم ہونا اس بات کا غماز ہے کہ خواب حقیقت کا روپ دھار سکتے ہیں۔ فائل فوٹو: سوشل میڈیا
دوسری عالمی جنگ میں جرمنی کی شکست کے بعد برلن کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ سرد جنگ اور آہنی پردے کے زمانے میں تعمیر کی جانے والی اس دیوار نے عشروں تک دونوں جرمن ریاستوں اور ان کے عوام کو ایک دوسرے سے دور رکھا۔
دیوار برلن تعمیر کرنے کے بہت سے مقاصد تھے اور ان میں سے ایک مشرقی جرمنی کے اقتصادی مفادات کا دفاع کرنا تھا کیونکہ 1949 سے 1961 کے درمیان سولہ لاکھ سے زائد افراد مشرقی حصے سے مغربی جرمنی ہجرت کر چکے تھے۔ مشرقی جرمنی کی سوشلسٹ حکومت نے اس ہجرت کو روکنے کے لیے دیوار برلن تعمیر کر دی۔ اس پوری دیوار کی سخت نگرانی کی جاتی تھی اور یہ کام 11 ہزار پانچ سو سپاہی انجام دیتے تھے۔ دیوار پار کرنے کی کوشش کرنے والے کو گولی مارنے کا حکم تھا۔ اس دوران اس دیوار کو مختلف جگہوں سے عبور کرنے کی کوشش میں کل کم از کم 136 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

دیوار برلن کیمونسٹ جرمنی اور امریکی اتحادی جرمنی کے درمیان حد بن گئی تھی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

دیوار برلن 155 کلو میٹر طویل تھی۔ اب چند ایک مقامات ہی ایسے بچے ہیں، جہاں اس دیوار کی باقیات موجود ہیں۔ تیرہ اگست 1961 میں بنائی جانے والی یہ دیوار اٹھائیس برس، دو ماہ اور ستائیس دن بعد نو نومبر 1989 کو منہدم کر دی گئی تھی۔ سرد جنگ کے دور میں یہی دیوار برلن عشروں تک جرمنی کی ریاستی تقسیم کی علامت بنی رہی تھی، لیکن نو نومبر 1989 کے دن جب یہ دیوار گرائی گئی تو محض ایک سال سے بھی کم عرصے میں کمیونسٹ نظام حکومت والی مشرقی جرمن ریاست ناپید ہو گئی۔ دونوں جرمن ریاستوں کا اتحاد عمل میں آیا۔
تبدیلی اور زیادہ آزادی کی عوامی خواہشات کا ایک سیلاب تھا جس کے آگے آہنی پردہ بھی پگھل گیا، اور ساتھ ہی پورے یورپ میں عظیم تر سیاسی اور جغرافیائی تبدیلیوں کا ایک ایسا طویل سلسلہ شروع ہو گیا، جو سوویت یونین کے خاتمے اور مشرقی یورپ میں بہت سی نئی ریاستوں کے وجود میں آنے کا سبب بھی بنا۔

دیوار برلن دو ماہ اور ستائیس دن بعد نو نومبر 1989 کو منہدم کر دی گئی تھی۔ فائل فوٹو: سوشل میڈیا

نو نومبر 1989  کی شام سات بجے مشرقی اور مغربی جرمن ریاستوں کے کئی ملین شہری حسب معمول اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے خبریں سن رہے تھے۔ جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک یا GDR کہلانے والی مشرقی جرمن ریاست میں کئی مہینوں سے ایسے عوامی مظاہرے جاری تھے، جن میں عام شہری اپنے لیے سفر کی زیادہ آزادی، روزمرہ زندگی میں زیادہ جمہوری طرز عمل کے حق اور ریاستی سطح پر سوشلسٹ حکمرانوں سے کھلے پن اور جامع اصلاحات کی سیاست کے مطالبے کر رہے تھے۔

اعلان کرنے والوں کو اندازہ نہ تھا کہ ردعمل میں اتنا سب کچھ ہو گا۔ فائل فوٹو: سوشل میڈیا

نو نومبر کے تاریخ ساز دن مشرقی جرمنی کی حکومت نے ملک میں داخلی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے عام شہریوں سے متعلق سفری قوانین میں نرمی کا فیصلہ کیا، لیکن جو کچھ مشرقی برلن میں حکومت نے سوچا تھا، نتیجہ اس کے بالکل برعکس نکلا۔ حکومت نے ایک ضابطہ منظور کیا، جس کے تحت GDR کے ہر شہری کے لیے یہ ممکن ہو گا کہ وہ اس ریاست کی بیرونی ملکوں کے ساتھ تمام سرحدی گزر گاہیں عبور کر سکتا ہے۔ چند ہی لمحوں میں یہ حیران کن خبر پوری دنیا میں پھیل گئی۔ پھر برلن شہر کے مختلف حصوں سے گزرنے والی یہ طویل دیوار اپنے قیام کے اٹھائیس برس بعد کئی جگہ سے کھول دی گئی۔ اور پہلی مرتبہ مشرقی جرمنی کے شہریوں کو یہ اجازت بھی مل گئی کہ وہ کوئی وجہ بتائے بغیر سرحد عبور کر کے مغربی حصے پر مشتمل وفاقی جمہوریہ جرمنی میں داخل ہو سکیں۔
اس اعلان کے بعد مشرقی جرمنی میں فوری طور پر عوام کا ڈرامائی رد عمل دیکھنے میں آیا۔ مشرقی برلن کے دور دراز کے علاقوں کے شہری تاریخی برانڈن بُرگ گیٹ والے علاقے کا رخ کرنے لگے۔ سرحدی محافظین حیران تھے کہ ان کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے، اور پھر انہوں نے عوام کے ایک بڑے سیلاب کے آگے کھڑے ہونے کے بجائے ایک طرف ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ آدھی رات سے کچھ ہی دیر پہلے مشرقی جرمنی کے اولین شہری دیوار پار کر کے یا پھلانگ کر مغربی برلن میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

 

جرمن باشندے خوشی سے نعرے لگا رہے تھے، جس کے ہاتھ میں جو کچھ بھی آیا، اس کی مدد سے دیوار کو توڑنا شروع کر دیا۔ یہ وہ لمحات تھے جب ایک ہی قوم کے دو مختلف ریاستوں کے شہری جو ایک دوسرے کے لیے بلکل اجنبی تھے، فرط جذبات سے ایک دوسرے کو گلے لگا رہے تھے۔ یہ منظر دیکھنے والے بہت سے جرمن اور غیر ملکی صحافیوں نے بعد ازاں لکھا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں اس سے پہلے بیک وقت اتنے زیادہ افراد کو انتہائی زیادہ خوشی کی حالت میں بچوں کی طرح روتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ یہ سب انتہائی ناقابل یقین تھا۔ کوئی بھی اس پر یقین نہیں کر سکتا تھا کہ دیوار برلن گرا دی گئی ہے۔
بہت سے مورخین کی رائے میں بیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے کی یورپی تاریخ کا سب سے اہم واقعہ دیوار برلن کا انہدام ہے۔ سنگ کی صورت میں یہ دیوار ریاستی ظلم کی داستان کی ایک علامت ہے، جس نے لاکھوں لوگوں کے لیے ناقابل برداشت نقش چھوڑے۔
دیوار برلن کا منہدم ہونا اس بات کا غماز ہے کہ خواب حقیقت کا روپ دھار سکتے ہیں۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ ہم یہ استطاعت رکھتے ہیں کہ اپنی قسمت سنوار سکیں اور معاملات کو سلجھائیں۔ اس دیوار کے گرائے جانے کے پیچھے یہی پیغام مضمر ہے۔

کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: