Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پشاور کا ڈھابہ اور وہاں چائے پیتی لڑکیاں

ہم تینوں سب لوگوں کی نظر میں ایسے تھے جیسے کوئی خلائی مخلوق۔ فائل فوٹو: سوشل میڈیا
سامنے سے دو لڑکے آ رہے ہیں وہ دائیں مڑنا چاہتے تھے مگر بائیں جانب مڑ گئے کیونکہ انہوں نے پہلی بار تین لڑکیوں کو ایک ایسی جگہ پر بیٹھے دیکھا جہاں صدیوں سے صرف مردوں ہی کو دیکھتے تھے۔ ان کے لیے یہ ایک عجیب اور نئی بات تھی۔
میں سارہ اور مہک پہلی بار چائے پینے پشاور میں صدر کے فوارہ چوک میں ایک ڈھابے پر بیٹھے تھے جہاں میں نے کیا، پشاور کے کسی شہری نے کبھی کسی لڑکی کو اس طرح باہر بیٹھ کر چائے پیتے یا کھانا کھاتے ہوئے نہیں دیکھا ہوگا۔ ہم تینوں سب لوگوں کی نظر میں ایسے تھے جیسے کوئی خلائی مخلوق۔ ہم تینوں نے گھٹنوں تک لمبی قمیص اور ٹائیٹس پہن رکھی تھیں مگر سر پر چادر اوڑھی ہوئی تھی۔
اس طرح پہلی بار پشاور میں کھلے آسمان تلے چائے پینے پر ہم ذرا عجیب تو محسوس کر رہے تھے، یا یوں کہیں کہ ہمیں ایسا محسوس کرایا جا رہا تھا۔ لیکن میری اچانک ہنسی نکلی جب اس ڈھابے پر پشتو گانوں کو روک کر انگریزی گانا چلا دیا گیا۔
میں نے مذاق میں اپنی دوست سارہ سے کہا چائے والے کو ہم انگریز لگ رہے ہیں۔

ان کے لیے یہ ایک عجیب اور نئی بات تھی۔ فائل فوٹو: سوشل میڈیا

پاس سے گزرنے والوں کے چہروں کے تاثرات دیکھ کو یوں معلوم ہو رہا تھا گویا وہ سوچ رہے ہوں کہ ’تبدیلی آگئی ہے‘۔
حیرت کی بات یہ بھی تھی کہ واپسی پر جب جلیبیاں لینے ایک دکان پر رکیں تو انہوں نے پوچھا ’آپ انگلینڈ سے آئیں ہیں؟‘ میں نے سوچا انہیں وضاحت دی جائے اور فوراً ہی اس خیال پر عمل کرتے ہوئے انہیں بتا ڈالا کہ ہم پشاور ہی میں پیدا ہوئیں اور یہیں اب تک کی ساری زندگی گزاری ہے۔ یہ کہتے ہی ہم جلدی سے وہاں سے نکل گئیں۔
پشاور میرا شہر ہے، میں یہاں پلی بڑی ہوں، میری زندگی کے تقریباً 30 سال یہاں کی گلیوں اور سڑکوں سے گزرتے پورے ہوئے ہیں لیکن وہ گزرنا کبھی سکون کی کیفیت نہیں دیتا تھا۔ ہر لمحہ بس یہی سوچتے گزرا کہ لوگ کیا کہیں گے، میرے کپڑوں پر اعتراض تو ںہیں کریں گے۔ لوگ سوچیں گے اتنی رات کو لڑکیاں بازار میں کیا کر رہی ہیں۔ لیکن اس سوچ کے دھاگے کو توڑنا میں نے ضروری سمجھا اور کسی قسم کی فکر کو اپنے راستے میں آنے کی اجازت دیے بغیر گھر سے نکلی، صرف اس نیت سے کہ لوگوں کی سوچ بدلے اور آنے والی نسلوں کے لیے آسانیاں ہوں۔
پشاور اب بدل رہا ہے، کہیں ہر دوسری لڑکی اب ڈرائیونگ کر رہی ہے تو کہیں سائیکل چلا رہی ہے۔ اب  زیادہ سے زیادہ لڑکیوں کو نوکری کرنے کے مواقع بھی مل رہے ہیں، اب لوگوں میں آگاہی آرہی ہے لہٰذا توقع ہے کہ آہستہ آہستہ یہ شہر بدل جائے گا۔
فوارہ چوک وہ جگہ ہے جسے پشاور کا مرکزی علاقہ مانا جاتا ہے۔  صدر بازار، جہاں پورے خیبر پختونخوا سے خواتین و مرد شاپنگ کرنے آتے ہیں، یہاں ایک فوڈ سڑیٹ ہے جہاں پشاور کے زبردست ذائقے والے اور مناسب دام دستیاب تازہ کھانے ملتے ہیں۔ یہاں بیٹھنے کا انتظام اتنا خاص نہیں بس ایک دو ریستورانوں میں لوگوں کو بٹھا دیتے ہیں اور خواتین کے لیے الگ سے پردے میں اہتمام کیا گیا ہے۔ رش اور جگہ نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر لوگ یہلں سے کھڑے کھڑے ہی گرما گرم کھانا بنوا کر ساتھ لے جاتے ہیں۔
خیبر پختونخوا حکومت توجہ دے تو اسے فوڈ سڑیٹ کو تھوڑا بڑھانا چاہیے تاکہ وہ لوگ جو بڑے بڑے ریستورانوں میں دوستوں کے ساتھ جانا افودڑ نہیں کر سکتے وہ یہاں لطف اندوز ہو سکیں اور دوسرا یہ کہ خواتین اگر کھانے کے لیے وہاں جائیں تو انہیں ایسا ماحول ملے کہ وہ خود کو خلائی مخلوق نہ محسوس کریں۔

کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: