Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’انڈیا میں گاندھی پر جناح کی جیت!‘

برکھا دت کے مطابق انڈیا نے اپنے آپ کو پاکستان کے عکس میں ڈھال لیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا کی پارلیمان میں پیر کو شہریت کا ترمیمی بل پیش کیا گیا جسے بڑی اکثریت کے ساتھ منظور کر لیا گیا لیکن اسے جہاں انڈیا کے آئین کے منافی کہا جا رہا ہے وہیں اسے پارلیمان میں گاندھی پر جناح کی جیت سے تعبیر کیا گيا ہے۔
انڈیا کے معروف سیاستدان اور کانگریس رہنما ششی تھرور نے شہریت کے ترمیمی بل یعنی سی اے بی (کیب) کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ مجوزہ بل آئین کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے ’اگر یہ بل منظور ہوتا ہے تو یہ مہاتما گاندھی پر محمد علی جناح کے افکار کی جیت ہوگی۔‘
اس بل کے تحت افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کی چھ مذہبی اقلیتی برادریوں کو انڈیا کی شہریت کی اجازت ہوگی جس میں مسلمان شامل نہیں ہیں۔

 

پیر کو سوشل میڈیا پر جہاں سی اے بی پر زوردار بحث ہوتی رہی وہیں منگل کی صبح جناح کا ٹرینڈ ٹاپ ٹین میں نظر آیا۔
انڈیا میں پاکستان کے بانی محمد علی جناح کا ذکر ان کی موت کے 70 سال بعد بھی زور شور سے ہوتا رہتا ہے اور اس کا استعمال کبھی سخت گیر ہندو تنظیموں کے رہنماؤں کی جانب سے ہوتا ہے تو کبھی کانگریس کے ارکان بھی اس کا استعمال کر تے ہیں۔ اس سے قبل محمد علی جناح پر انڈیا میں اس وقت شد و مد کے ساتھ بحث ہوئی تھی جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ان کی ایک تصویر متنازع ہو گئی تھی۔
انڈیا کے ترمیمی بل پر مضمون لکھتے ہوئے معروف صحافی برکھا دت نے لکھا کہ ’انڈیا نے اپنے آپ کو پاکستان کے عکس میں ڈھال لیا ہے۔‘
انھوں نے لکھا کہ بہت سے لوگ انڈیا میں اور انڈیا کے باہر بدلتے انڈیا کو ہندو پاکستان کہہ رہے تھے لیکن وہ انھیں مناسب نہیں لگتا تھا۔ انھوں نے لکھا کہ ’ لیکن آج پہلی بار مجھے اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ انڈیا نے سرکاری طور پر خود کو پاکستان کی تصویر میں ڈھال لیا ہے۔‘
اس مضمون اور ٹویٹ کے جواب میں اوپس آف علی نامی ایک صارف نے لکھا: ’1۔ دو قومی نظریہ پہلے پہل ہندوؤں نے پیش کیا، 2۔ جناح نے تول مول کرنے اور انڈیا کے ساتھ رہنے کی کوشش کی لیکن ہندوؤں نے انھیں مسترد کر دیا، 3۔ پاکستان نے کبھی بھی مذہب کی بنیاد پر اپنے شہریوں کی شہریت ختم کرنے کا کوئی قانون منظور نہیں کیا، 4۔ اپنی خرابیوں کو کسی سے جوڑے بغیرتسلیم کریں۔‘
بہت سے لوگوں نے انڈیا کے وزیر داخلہ امت شاہ کا موازنہ محمد علی جناح کے ساتھ کیا ہے۔
پرتیک پرسون نامی ایک صارف نے لکھا: ’امت شاہ نے جناح کے دو قومی نظریے کی پیروی کی۔‘
عمران پیری شاہ نے اوپس آف علی کو جواب دیتے ہوئے محمد علی جناح کا سنہ 1942 کا ایک مبینہ قول نقل کیا جس میں کہا گیا تھا ’انڈیا کی اکثریت مسلمانوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کریں گے جیسا کہ یورپ میں نازیوں نے یہودیوں کے ساتھ کیا۔‘
اندر دیپ خان نامی ایک صارف نے لکھا ’شہریت کا ترمیمی بل جناح کے دو قومی نظریے پر ہندوستان کی جانب سے سرکاری مہر ہے۔‘
جبکہ انکر سنگھ نامی صارف نے لکھا ’ کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ ہمارے وزیر داخلہ بے وقوف کی طرح چیخ رہے ہیں کہ کانگریس تقسیم کی ذمہ دار تھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندو مہا سبھا اور جناح نے مذہبی بنیادوں پر تقسیم کی حمایت کی۔ جبکہ کانگریس تقسیم کے بالکل خلاف تھی اور اپنی جانب سے بہترین کوشش کی۔‘
نورانی سن نامی ایک صارف نے لکھا: ’بھارت گاندھی، نہرو اور جناح کی جاگیر نہیں تھی کہ انھوں نے بغیر ریفرینڈم کے ملک کو تقسیم کر دیا۔۔۔ تینوں ممالک کے لوگوں کو انڈیا کو پھر سے متحد کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔‘
انڈیا میں جب جب اس قسم کے متنازع معاملات پیش آئیں گے تقسیم ہند اور اس وقت کے رہنماؤں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا۔

شیئر: