پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے ملک بھر میں نو لاکھ سے زائد ویب سائٹس بلاک کی ہیں جن میں چھ ہزار سے زائد ویب پیجز ایسے بتائے گئے ہیں جن پر عدلیہ مخالف مواد موجود تھا۔
بلاک کی جانے والی ویب سائٹس میں مبینہ طور پر ریاست مخالف اور توہین مذہب کا مواد شائع کرنے والی ویب سائٹس بھی شامل ہیں۔
قومی اسمبلی میں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن کی جانب سے تحریری طور پر جمع کروائے گئے جواب میں بتایا گیا ہے کہ ملک بھر میں کل نو لاکھ 33 ہزار 775 ویب سائیٹس کو بلاک کیا گیا ہے۔ جن میں چھ ہزار 182 ویب سائیٹس عدلیہ مخالف، 13 ہزار 175 ویب سائٹس ریاست مخالف جبکہ 53 ہزار 654 ویب سائٹس توہین مذہب کا مواد رکھنے پر بلاک کی گئی ہیں۔
مزید پڑھیں
-
انٹرنیٹ کیوں بند کیا؟ امریکہ نے ایرانی وزیر پر پابندیاں لگا دیںNode ID: 444711
-
جعلی میڈیکل سرٹیفکیٹ جاری کرنے والی ویب سائٹ سے خبر دارNode ID: 446621
-
سعودی عرب میں انٹرنیٹ صارفین کتنے؟Node ID: 447481
بلاک کی جانے والی ویب سائٹس میں سب سے زیادہ تعداد فحش اور غیر اخلاقی مواد رکھنے والی ویب سائٹس کی ہے۔ جن کی کل تعداد آٹھ لاکھ 31 ہزار 674 بتائی گئی ہے۔ اسی طرح 10 ہزار 196 پراکسیز کو بھی بلاک کیا گیا ہے۔
حکام کے مطابق نفرت انگیز اور فرقہ وارانہ مواد رکھنے والی 11 ہزار 346 ویب سائٹس کو بھی بلاک کیا گیا ہے۔
ویب سائٹس بلاک کرنے کا طریقہ کار کیا ہے؟
پی ٹی اے الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام ایکٹ 2016 کے سیکشن 37 کے تحت کسی بھی ایسی ویب سائٹ یا پیج کو بلاک کرنے کے لیے کارروائی کرتی ہے جس میں ’توہین مذہب‘، ’ریاست مخالف‘، ’توہین عدالت‘ یا ’غیر اخلاقی‘ مواد موجود ہو۔

پی ٹی اے حکام کے مطابق ویب سائٹ یا کسی پیج، ویڈیو یا تحریر کے خلاف شکایت سیل قائم کیا گیا ہے جہاں پر عوامی شکایات درج کی جاتی ہیں۔ پی ٹی اے کا ویب انالیسز ڈائیریکٹریٹ ان شکایات کا جائزہ لینے کے بعد متنازع مواد کو ہٹانے کے لیے کارروائی کا فیصلہ کرتا ہے۔
’عدلیہ مخالف‘ یا ’ریاست مخالف‘ کی تعریف کیا ہے؟
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے رکن سینیٹر میر حاصل بزنجو نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’عدلیہ مخالف‘ یا ’ریاست مخالف‘ کی تعریف موجود نہیں۔ ’جو پابندیاں ہم لگاتے ہیں پہلے ان کو تو واضح کیا جائے، پہلے یہ تو طے کیا جائے کہ عدلیہ مخالف یا ریاست مخالف کی تعریف کیا ہے؟ بنیادی بات تو یہ ہے کہ ہمارے پاس ان کی تعریف موجود ہی نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اس طرح کی پابندیاں جب لگتی ہیں تو ریاست پھر اس کا غلط استعمال کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’عدلیہ مخالف یا ریاست مخالف مواد کون سا ہوتا ہے اس کا فیصلہ کس نے کرنا ہے یہ معاملہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں بھی اٹھایا جائے گا۔‘

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے رکن ڈاکٹر اشوک کمار نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا پی ٹی اے کو اس طرح فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ ’میں سمجھتا ہوں کہ عدلیہ مخالف مواد کون سا ہے یہ فیصلہ کرنا پی ٹی اے کی صوابدید نہیں ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت کی طرف سے پی ٹی اے کو کوئی ہدایت آئے کہ یہ مواد ہٹانا ہے تو پی ٹی اے اس پر کارروائی کرتا ہے لیکن اس کا فیصلہ کون کرے گا یہ مواد عدلیہ مخالف یا ریاست مخالف ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی اے اور ایف آئی اے دونوں کے درمیان روابط بہت ضروری ہیں لیکن دونوں اداروں کے درمیان روابط کا فقدان ہے۔ ’پی ٹی اے میں کافی کام کرنے کی گنجائش موجود ہے اور اس میں بہت سی بے قاعدگیاں بھی ہیں جو کہ درست کرنی ہیں۔‘
یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی پی ٹی اے کو دوسرے فریق کو سننے بغیر ویب سائیٹ بند کرنے سے روک رکھا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ویب پیجز بند کرنے کے حوالے سے رولز واضح کرنے کا بھی حکم جاری کیا ہے۔
