Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’دل خون کے آنسو رو رہا ہے‘

نریندر مودی نے شہریت کے نئے قانون پر عوام سے پر امن رہنے کی اپیل کی ہے۔ فوٹو اے ایف پی
انڈیا میں شہریت کے نئے ترمیمی قانون کے خلاف جاری احتجاجی مظاہروں کے دوران پولیس کے طلبا پر طاقت کے استعمال سے حالات مزید کشیدہ  ہو گئے ہیں۔
پولیس نے دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا پر فائرنگ کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ زخمی ہونے والے تین افراد پولیس کی فائرنگ سے نہیں بلکہ آنسو گیس کے شیل لگنے سے زخمی ہوئے ہیں تاہم مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق صفدر جنگ ہسپتال حکام نے کم از کم دو مظاہرین کو گولیاں لگنے کی تصدیق کی ہے جبکہ تیسرا شخص ایک راہگیر تھا۔  
اس سے قبل انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے شہریت کے نئے قانون کے خلاف پرتشدد مظاہروں کے دوران عوام سے پر امن رہنے کی اپیل کی ہے۔
دریں اثنا دہلی، ممبئی، حیدرآباد، لکھنؤ، کولکتہ میں بڑے احتجاجی مظاہرے نظر آئے۔ پیر کو ہونے والے مظاہرے زیادہ تر دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے طلبہ کے خلاف پولیس آپریشن کے رد عمل میں سامنے آئے۔
دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اتوار کی شام سے شروع ہونے والے پرتشدد واقعات پیر کی رات گئے جاری رہے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ وہ دیر رات تک شہریت کے ترمیمی بل اور وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ سب کے سب پر امن تھے لیکن ملک بھر سے ملنے والی حمایت نے ان میں ایک قسم کا جوش بھر دیا تھا۔
انڈیا میں ٹیکنالوجی کے معروف ادارے جو ملک کی شان کہے جاتے ہیں وہاں عام طور پر سیاسی سرگرمیاں بالکل نہیں ہوتیں لیکن گذشتہ روز کم از کم تین ایسے بڑے اداروں میں جامعہ کے طلبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے جلوس نکالے گئے۔ ان میں آئی آئی ٹی بمبئے، آئی آئی ٹی مدراس اور آئی آئی ٹی کانپور اہم ہیں جبکہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلبہ نے فوری کال دیتے ہوئے دہلی میں آئی ٹی او پر قائم دہلی کے پولیس ہیڈکوارٹر پر دھرنا دیا اور وہاں سے اس وقت تک نہ اٹھے جب تکہ جامعہ کے گرفتار کیے جانے والے تمام طلبہ کو پولیس حراست سے آزاد نہ کرا لیا۔
جامعہ سے موصول ہونے والی خبروں میں بتایا جاتا ہے کہ پولیس کی زیادتی کے وہ طلبہ بھی شکار ہوئے جو لائبریری میں پڑھ رہے تھے۔ زخمیوں کی تعداد 100 سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ جبکہ 50 سے زیادہ بچے حراست میں لیے گئے تھے۔

جامعہ اسلامیہ میں پولیس کے تشدد کے نتیجے میں زخمیوں کی تعداد 100 سے زیادہ بتائی جا رہی ہے۔ فوٹو اے ایف پی

دوسری جانب علی گڑھ سے یہ خـبر آ رہی ہے کہ وہاں موسم سرما کی اچانک تعطیل کا اعلان کر دیا گیا ہے اور اتوار کی شام پولیس کیمپس میں داخل ہو گئی تھی۔ عام طور پر پولیس کو بغیر انتظامیہ کی اجازت کے یونیورسٹی کیمپس میں داخل ہونے کی روایت نہیں رہی ہے، لیکن جامعہ اور پھر علی گڑھ والے معاملے میں پولیس مستثنیٰ رہے۔
شمال مشرقی ریاست آسام کے دارالحکومت گوہاٹی سے کرفیو ختم کر دیا گیا ہے جبکہ ڈبروگڑھ میں اس میں نرمی کی گئی ہے۔
ٹائمز آف انڈیا کی خبر کے مطابق پورے ملک کے 36 اداروں میں شہریت کے نئے قانون کے خلاف مظاہرے ہوئے جس میں بی جے پی کے رہنماؤں کے پتلے جلائے گئے۔
اخبار کے مطابق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک طالب علم کا آنسو گیس کا شیل لگنے سے دایاں ہاتھ جاتا رہا۔ جبکہ پولیس کے ساتھ تصادم میں 60 طلبہ زخمی ہوئے ہیں اور پولیس نے 52 افراد کے خلاف تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے جس میں قتل کی کوشش کی دفعات بھی شامل ہیں۔
بالی وڈ کے معروف نغمہ نگار اور سکرپٹ رائٹر جاوید اختر نے ٹویٹ کیا 'ملک کے قانون کے مطابق کسی بھی صورت حال میں پولیس یونیورسٹی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر کسی یونیورسٹی کیمپس میں داخل نہیں ہو سکتی۔ جامعہ کیمپس میں بغیر اجازت داخل ہو کر پولیس نے ایک نئی روش شروع کی ہے جس سے ہر یونیورسٹی کو خطرہ ہے۔'
جاوید اختر کے اس ٹویٹ کے جواب میں آئی پی ایس افسر سندیپ متل نے لکھا 'ڈیئر ماہر قانون، برائے مہربانی ملک کے قانون پر روشنی ڈالیں کہ کس قانون اور اس کی کس شق کے تحت ایسا کیا گيا تاکہ ہم لوگوں کے بھی علم میں اضافہ ہو۔'
سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ بالی وڈ 'بادشاہ' شاہ رخ خان سے جامعہ ملیہ سے تعلق کے ناطے اظہار ہمدردی کے خواہاں نظر آئے۔ بہر حال شاہ رخ خان نے تو کو‏ئی رد عمل ظاہر نہیں کیا لیکن اداکار راجکمار راؤ اور اداکارہ کونکنا سین نے پولیس ایکشن کی مذمت کی جبکہ فلم ساز النکریتا شریواستو نے منگل کو ٹویٹ کیا اور کہا کہ ان کا دل جامعہ کے طلبہ کے لیے خون کے آنسو رو رہا ہے جن پر بے رحمی سے حملہ کیا گيا۔'
انھوں نے جامعہ کے ساتھ اظہار یکجہتی میں بہت سے ٹویٹ کیے۔
گذشتہ روز وزیر اعظم نریندر مودی نے شہریت کے نئے قانون کے خلاف ملک گیر احتجاج پر متعدد ٹویٹس کیں۔ انھوں نے لکھا 'شہریت کے ترمیمی قانون پر پرتشدد احتجاج بدقسمتی اور تشویشناک امر ہے۔ بحث و مباحثہ، مکالمے اور اختلاف رائے جمہوریت کے لازمی اجزا ہیں، لیکن سرکاری املاک کی تباہی اور عام زندگی کو درہم برہم کرنا کسی صورت درست نہیں۔'
انھوں نے مزید لکھا 'میں انڈینز کو یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ شہریت کے قانون سے کسی بھی شہری پر مذہب کی بنیاد پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ کسی کو بھی اس قانون سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ قانون ان لوگوں کے لیے ہے جو برسوں سے ظلم و ستم کا شکار رہے ہیں اور ان کے لیے انڈیا کے علاوہ کوئی جگہ نہیں ہے۔'
دوسری جانب مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ اور ترنامول کانگریس پارٹی کی سربراہ ممتا بنرجی نے مرکز میں نریندر مودی حکومت کو شہریت ترمیمی قانون یعنی سی اے اے اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن یعنی این آر سی پر کھلاچیلنج دیتے ہوئے کہا کہ اگر وہ چاہیں تو مرکز ان کی حکومت کو برطرف کرسکتی ہے لیکن وہ مغربی بنگال میں شہریت میں ترمیم کے قانون کو نافذ کرنے کی اجازت نہیں دیں گی۔
ممتا نے پیر کے روز ایک بڑی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 'اس پر عمل درآمد میری لاش پر ہو گا۔'

نریندر مودی نے یقین دلایا گیا ہے کہ شہریت کے قانون سے کسی شہری پر مذہب کی بنیاد پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ فوٹو اے ایف پی

اس سے قبل ریاست کے گورنر نے ٹویٹ کیا تھا کہ وزیراعلیٰ اور ریاست کے دیگر وزرا نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ریلی کی کال دی ہے جو کہ غیر آئینی ہے اور آئینی عہدے پر بیٹھا کوئی بھی شخص قانون کی مخالفت نہیں کرسکتا۔
انہوں نے کہا کہ وہ منگل کو ممتا بنرجی سے ملاقات کریں گے اور توقع ہے کہ اس میں تمام اہم امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
ادھر اترپردیش کی ریاست لکھنؤ سے یہ خبر ہے کہ معروف دینی ادارے ندوۃ العلما میں بے وقت تعطیل کر دی گئی ہے اور ہاسٹل کو طلبہ سے خالی کرانے کا حکم دے دیا گيا ہے۔

شیئر: