Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رواں برس بلوچستان میں 13 سالوں میں سب سے کم ہلاکتیں

2019 میں فرقہ واریت کی بنیاد پر ہلاکتوں کی تعداد میں دوگنا اضافہ ہوا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
عسکریت پسندی اور شورش کے شکار صوبہ بلوچستان میں رواں سال دہشت گردی کے واقعات کے نتیجے میں ہلاکتوں میں واضح کمی آئی ہے۔
حکام کے مطابق 2019 میں ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں سمیت دہشت گرد حملوں میں 145 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ گذشتہ 13 سالوں کے دوران دہشت گردی میں ہلاکتوں کی سب سے کم تعداد ہے۔
بلوچستان کے داخلہ و قبائلی امور کے محکمے کے اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں یکم جنوری سے دسمبر کی 16 تاریخ تک یعنی ساڑھے 11 مہینوں میں بلوچستان بھر میں ٹارگٹ کلنگ، بارودی سرنگ، بم دھماکوں اور راکٹ حملوں سمیت دہشت گردی کے مجموعی طور پر190 واقعات رپورٹ ہوئے۔ جن میں 145 افراد ہلاک جبکہ 528 زخمی ہوئے۔ مرنے والوں میں نصف سے زائد سکیورٹی فورسز کے اہلکار تھے۔ 
تاہم اردو نیوز کو محکمہ داخلہ بلوچستان کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ 2018 کے مقابلے میں رواں سال دہشتگردی کے واقعات میں ایک تہائی کمی جبکہ ہلاکتوں میں 53 فیصد کمی ہوئی ہے۔ سنہ 2018 میں دہشت گردی کے284 واقعات میں 313 افراد ہلاک ہوئے جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد 609 تھی۔
2019 میں پاک فوج، فرنٹیئر کور، پولیس اور لیویز سمیت دیگر قانون نافذ کرنےوالے اداروں پر 86 حملے ہوئے۔ ان حملوں کے نتیجے میں پولیس کے 21 اور لیویز کے11 اہلکاروں سمیت 75 سکیورٹی اہلکار ہلاک اور 145 اہلکار زخمی ہوئے۔ مرنے والے باقی 43 اہلکار فرنٹیئر کور دیگر سکیورٹی اداروں کے اہلکار تھے۔

2019 میں سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں پر 86 حملے ہوئے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

29 جنوری کو لورالائی میں ڈی آئی جی پولیس کے دفتر پر حملے میں نو پولیس اہلکار ہلاک ہوئے۔ 18 اپریل کو گوادر کے علاقے اورماڑہ میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت 14 افراد کو بس سے اتار کر قتل کیا گیا۔21 اپریل کو کوئٹہ کے  علاقے  ہزارگنجی میں خودکش بم حملے میں21 افراد کی موت ہوئی۔ مئی میں گوادر میں پرل کانٹینینٹل ہوٹل پر حملے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے۔
اس کے علاوہ 2019 میں بارودی سرنگ، بم اور راکٹ حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے دیگر 94 واقعات میں37 افراد کی موت ہوئی۔
2019 میں فرقہ واریت کی بنیاد پر ہلاکتوں کی تعداد میں دوگنا اضافہ ہوا ہے۔ اس بنیاد پر ہونے والے 9 حملوں میں 33 افراد کو قتل اور 115 کو زخمی کیا گیا۔
تاہم اعداد و شمار کے مطابق 2013 کے مقابلے میں بلوچستان میں فرقہ وارانہ دہشتگردی کے واقعات میں ہلاکتوں میں87 فیصد کمی آئی ہے۔ 2013 میں فرقہ واریت میں 258 افراد مارے گئے تھے ان میں 231 افراد کا تعلق ہزارہ برادری سے تھا۔

2019 میں فرقہ واریت کی بنیاد پر ہلاکتوں کی تعداد میں دگنا اضافہ ہوا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

بلوچستان میں دو دہائیوں سے نسلی، مسلکی اور مذہبی بنیادوں پر دہشتگردی کے واقعات ہورہے ہیں۔ 2006 میں بلوچ قبائلی رہنما نواب اکبر بگٹی کی ایک آپریشن میں ہلاکت کے بعد صوبے میں عسکریت پسندی میں واضح اضافہ ہوا۔
 محکمہ داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2007 سے 2019 تک 3340 افراد یعنی سالانہ اوسطاً اڑھائی سو افراد دہشتگردی کے واقعات میں ہلاک ہوئے۔2007 میں دہشتگرد حملوں میں 168افراد، 2008 میں 330، 2009 میں 333، 2010 میں317 اور2011 میں 310 افراد مارے گئے۔
2012 میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 418 تک پہنچی۔ ضرب عضب کے نام سے دہشتگردی کے خلاف مؤثر کارروائیوں کے نتیجے میں 2014 اور 2015 میں ہلاکتوں کی تعداد میں کمی ہوئی تاہم 2016 سے اس تعداد میں دوبارہ اضافہ ہوا۔
دہشتگردی کے حوالے سے سب سے ہلاکت خیز سال 2013 رہا جب 531 افراد نسلی، مسلکی اور مذہب کی بنیاد پر بم دھماکوں، بارودی سرنگ حملوں، راکٹ و گولہ باری اور ہدفی قتل کے واقعات میں مارے گئے۔ اسی طرح 1162 کو زخمی کیا گیا۔ 2013 کی نسبت 2019 میں دہشتگرد حملوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں میں72 فیصد کمی تک آئی ہے۔ 

ہزارہ کمیونٹی کی جانب سے فرقہ وارانہ واقعات کے خلاف احتجاج بھی ہوتے رہے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پولیس حکام نے اردو نیوز کو بتایا کہ دہشت گردی کے واقعات اور ہلاکتوں میں واضح کمی کی سب سے بڑی وجہ سویلین فورسز اور دیگر سکیورٹی اداروں کے درمیان مربوط روابط کا قیام اور دہشتگردوں سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی کے تحت کام کرنا ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہر ادارہ اپنے طور پر کام کرتا تھا مگر حالیہ چند سالوں میں پولیس، سی ٹی ڈی، لیویز، ایف سی اور انٹیلی جنس اداروں کے درمیان ایک بہترین ہم آہنگی قائم ہوئی ہے۔
’افغان سرحد ہمارے قریب ہے وہاں سے بیرونی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی اب بھی کوشش ہے کہ بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال کو خراب کریں مگر تمام سکیورٹی اداروں کے ساتھ ملکر کام کرنے کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔‘
پولیس حکام کے مطابق حکومتی توجہ سے سویلین سکیورٹی اداروں کے استعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پاک فوج نے پولیس اور لیویز اہلکاروں کو دہشتگردوں سے نمٹنے کی خصوصی تربیت دی۔ اب پولیس نے خود بھی انسداد دہشتگردی فورس کا تربیتی ادارہ قائم کردیا ہے جہاں ہم اپنے اہلکاروں کو دہشتگردی سے نمٹنے کے کئی کورسز کرارہے ہیں۔ اسی طرح لیویز فورس نے بھی اپنے اہلکاروں کی استعداد بڑھائی ہے۔

ایگل سکواڈ کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں پیٹرلنگ پر مامور ہے۔ (فائل فوٹو:اے ایف پی)

پولیس حکام  کے بقول پولیس میں کاﺅنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی ) کے قائم ہونے کا بھی بڑا فائدہ ہوا ہے جو عام پولیسنگ کی بجائے صرف دہشتگردوں سے نمٹنے کا کام کرتا ہے۔ کوئٹہ میں ایگل سکواڈ کے نام سے پولیس کمانڈوز کی تعیناتی کی حکمت عملی بھی موثر ثابت ہوئی ہے جو ہر وقت شہر کی سڑکوں پر موٹرسائیکلوں پر گشت کرتے رہتے ہیں۔
لورالائی میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہوا تو ہم نے وہاں بھی ایگل فورس بجھوائی اب وہاں بھی بہتری آئی ہے۔
پولیس حکام نے یقین ظاہر کیا کہ مستقل میں سیف سٹی پراجیکٹ پر عملدرآمد اور سویلین اداروں کے استعداد میں مزید اضافے سے امن وامان کی صورتحال میں مزید بہتری آئے گی۔  

شیئر: