Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نواز شریف کی سزا معطلی کا دورانیہ ختم، قانون کیا کہتا ہے؟

سابق وزیراعظم اپنے علاج کی غرض سے اس وقت لندن میں موجود ہیں فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کی العزیزیہ کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے سزا معطلی کا دورانیہ 29 دسمبر 2019 کو ختم ہونے بعد کئی قانونی پیچیدگیوں نے جنم لے لیا ہے۔ سب سے پہلا قانونی سوال یہ اٹھا ہے کہ 29 دسمبر کے بعد سابق وزیراعظم کی سزا کی قانونی حیثیت کیا ہے؟
اسلام آباد ہائی کورٹ نے 29 اکتوبر کو آٹھ ہفتوں کے لیے نواز شریف کی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ اپنے فیصلے میں عدالت نے مقدمہ نمٹاتے ہوئے درخواست گزار کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس معاملے پر آئندہ پنجاب حکومت سے رابطہ کریں کیونکہ ضابطہ فوجداری کے تحت کوئی بھی صوبائی حکومت کسی بھی مجرم کی سزا معطلی کا اختیار رکھتی ہے اور اس کے لیے عدالت آنے کی ضرورت نہیں۔
دسمبر کے دوسرے ہفتے میں مسلم لیگ ن نے وکیل خواجہ حارث کے ذریعے پنجاب حکومت کو درخواست دی تھی کہ نواز شریف کی صحت بحال نہیں ہو سکی لہذا ان کی سزا معطلی کا دورانیہ بڑھایا جائے جو 29 دسمبر کو ختم ہو رہا یے۔ تاہم مقررہ وقت گزرنے کے بعد بھی پنجاب حکومت اس معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں کر سکی ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت نے بتایا کہ ’نواز شریف کی جانب سے مزید سزا معطلی کی درخواست حکومت کو موصول ہو چکی ہے تاہم ابھی تک اس پر فیصلہ نہیں ہوا۔ وفاقی حکومت کے ساتھ مشاورت جاری ہے جبکہ خواجہ حارث کو بتا دیا گیا ہے کہ پنجاب کا محکمہ داخلہ ان کی درخواست پر غور کر رہا ہے جو بھی فیصلہ ہو گا انہیں آگاہ کر دیا جائے گا۔‘ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اگر سابق وزیراعظم کی مزید طبی رپورٹس جلدی موصول ہو جائیں تو حکومت کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گی۔
جب صوبائی وزیر قانون سے پوچھا گیا کہ عدالت کی جانب سے آٹھ ہفتوں کا وقت ختم ہو چکا ہے اس وقت نواز شریف کی سزا کی قانونی حیثیت کیا ہے کیونکہ ابھی تک حکومت کوئی فیصلہ نہیں کر پائی ہے تو ان کا کہنا تھا اس معاملے کو قانونی ٹیمیں دیکھ رہی ہیں یہ کوئی بحرانی کیفیت نہیں ہے۔

قانونی پیچیدگی ہے کیا؟

لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ اکرم قریشی نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’29 دسمبر کے بعد سابق وزیراعظم کی سزا ازخود بحال ہو چکی ہے اور قانون کی نظر میں اب ان کی سزا معطل نہیں۔ ان کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے اور بتانا چاہیے کہ پنجاب حکومت نے ان کی درخواست پر ابھی فیصلہ نہیں کیا۔‘

پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت کے مطابق نواز شریف کی درخواست پر وفاقی حکومت کے ساتھ مشاورت جاری ہے فوٹو: اے ایف پی

اکرم قریشی کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے جتنے عرصے کے لیے سزا معطل کی تھی وہ وقت گزر چکا اور اب اس میں جتنا وقت گزرے گا نئی قانونی پیچیدگی ہو گی۔ بظاہر اس صورتحال کی قانون میں کوئی گنجائش موجود نہیں صرف عدالت ہی اس کی تشریح کر سکتی ہے۔
سپریم کورٹ بار کے سیکرٹری شمیم الرحمن ملک نے اردو نیوز سے کو بتایا کہ ’میرے خیال میں ایسا نہیں ہے کہ نواز شریف کی سزا بحال ہو چکی ہے کیونکہ ضمانت کے قانون میں یہ واضح ہے کہ جب تک باقاعدہ ضمانت ختم نہیں کی جاتی وہ ضمانت ہی رہتی ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں اس بارے میں خاموشی ہے۔ ادھر متاثرہ فریق نے پنجاب حکومت کو وقت سے پہلے درخواست بھی دے رکھی تو معاملہ تو حکومت کے پاس ہے۔ ہاں یہ قانونی سقم تو ہے لیکن اس کی ذمہ داری بھی حکومت پر ہی ہے۔‘
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا ہے کہ انہوں نے تمام قانونی تقاضے پورے کیے ہیں اور وہ قانون کی مکمل پاسداری کر رہے ہیں حکومت کو چاہیے کہ اس معاملے پر جلد فیصلہ کرے اگر حکومت کو کسی قسم کی مزید دستاویزات چاہئیں تو بتایا جائے سب کچھ مہیا کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی قسم کی قانونی پیچیدگی اگر پیدا ہوئی ہے تو اس کی ذمہ داری بھی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے 29 اکتوبر کو آٹھ ہفتوں کے لیے نواز شریف کی سزا معطل کی تھی فوٹو: اے ایف پی

محکمہ داخلہ پنجاب کے ایک اعلی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ پنجاب کابینہ کی طرف سے معاملہ ہوم ڈیپارٹمنٹ کو موصول ہو چکا ہے اور بدھ کے روز اس پر چیف سیکرٹری کی سربراہی میں میٹنگ بھی ہوئی ہے اس درخواست پر جلد فیصلہ کر لیا جائے گا۔
خیال رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت نے سات سال کی قید کی سزا سنائی تھی۔
سابق وزیراعظم اس وقت لندن میں اپنے علاج کی غرض سے موجود ہیں۔ ان کی صحت بگڑنے پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی سزا آٹھ ہفتوں کے لیے معطل کر دی تھی۔

شیئر:

متعلقہ خبریں