Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹرمپ سے جنگ کا اختیار لینے کی قرارداد پر آج رائے شماری

ریپبلکنز اور ڈیمو کریٹس نے ٹرمپ اور ایران کی کشیدگی کم کرنے کی حمایت کی، فوٹو: اے ایف پی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے خلاف جوابی کارروائی نہ کرنے پر جہاں کانگریس نے سکھ کا سانس لیا ہے، اور ریپبلکنز ان کی تقریر کی تعریفیں کر رہے ہیں، وہیں ڈیمو کریٹس نے اپنے ’تحفظات‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کے ایران کے ساتھ جنگ کرنے کا اختیار واپس لینے کے لیے ایوان نمائندگان میں رائے شماری سے قرار داد پاس کروائیں گے۔
ریپبلکنزاور ڈیمو کریٹس نے مجموعی طور پر امریکی صدر اور ایرانی حکام کی جانب سے کشیدگی کم کرنے کی حمایت کی اور اس بات پر بھی اطمینان کا اظہار کیا کہ ایران کی طرف سے عراق میں امریکی فوجیوں پر کیے گئے میزائل حملوں میں کوئی امریکی ہلاک نہیں ہوا۔
تاہم بند کمرے میں ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے دی جانے والی بریفنگ بہت سے ڈیمو کریٹس اور چند ایک ریپبلکنز کو مطمئن نہیں کر سکی کہ عراق میں موجود ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو مارنا کیوں ضروری تھا کہ بات اس نوبت تک پہنچ جائے۔

 

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی نے صدر ٹرمپ سے ایران کے خلاف جنگ کرنے کا اختیار واپس لینے کی قرارداد کے لیے جمعرات کو ووٹنگ کروانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ ٹرمپ انتظامیہ ایران کے ساتھ کشیدگی کے حوالے ان کے تحفظات دور کرنے میں ناکام رہی ہے۔‘
نینسی پلوسی نے کہا کہ ’صدر نے واضح کر دیا ہے کہ ان کے پاس امریکی شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے، ایران کے ساتھ کشیدگی کم کرنے اور خطے میں استحکام کو یقینی بنانے کی کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بند کمرے کے اجلاس میں صدر ٹرمپ کی انتظامیہ ہمارے تحفظات دور کرنے میں ناکام رہی ہے۔‘
واضح رہے کہ امریکہ کے 1973 کے ’وار پاورز ایکٹ‘ کے تحت انتظامیہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی بڑی فوجی کارروائی سے قبل کانگریس کو اس بارے میں مطلع کرے، تاہم صدر ٹرمپ نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کرنے کے لیے کیے جانے والے حملے کو ’خفیہ‘ رکھا۔

مبصرین کے مطابق سینیٹ میں ریپبلکنز کی اکثریت ہے اور وہ قرارداد کی مخالفت کریں گے، فوٹو: اے ایف پی

نینسی پلوسی کا کہنا ہے کہ ’اس لیے ایوان نمائندگان 1973 کے ایکٹ کے تحت صدر ٹرمپ کی ایران کے خلاف جنگ کرنے کی صلاحیت کو محدود کرنا چاہتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایوان نائن الیون کے بعد طاقت کے استعمال کے اختیار کو واپس لینے کے لیے بھی جلد اقدامات کرے گا۔‘
مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ قرارداد ایوان نمائندگان سے پاس ہونے کے بعد سینیٹ میں جائے گی جہاں ریپبلکنز کی اکثریت ہے اور وہ اس کی مخالفت کریں گے۔

صدر ٹرمپ کی تقریر پر امریکی قانون سازوں کا ردِعمل

ٹرمپ انتظامیہ کی بریفنگ کے بعد ڈیمو کریٹس اور چند ریپبلکنز نے کہا ہے کہ ’حکام نے کوئی ایسا ثبوت پیش نہیں کیا جس سے یہ اخذ کیا جا سکے کہ  قاسم سلیمانی امریکہ کے لیے ’فوری خطرہ‘ تھے۔‘
انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ کی اس بات پر مخالفت کی کسی غیر ملکی لیڈر کو کسی تیسرے ملک میں مارنا جائز ہے۔

سینیٹر چک شومر نے کہا کہ بہت سارے اہم سوالات کے جوابات نہیں دیے گئے، فوٹو: اے ایف پی

ایوان نمائندگان میں امور خارجہ کمیٹی کے چیئرمین ایلیٹ اینجل نے کہا کہ ’انتظامیہ جو کہہ رہی تھی اس کا لب لباب یہ تھا کہ ہم پر بھروسہ کریں۔ جب اس طرح کے معاملات میں یہ بات آتی ہے جب ہمیں کئی طرح کی مختلف چیزیں بتائی جاتی ہیں تو مجھے معلوم نہیں کہ میں کس پر یقین کروں اورمیں کیا یقین کروں۔‘
ریپبلکن چیئرمین آف سینیٹ جم رِش کا کہنا تھا کہ ’انہوں نے اب تک جتنی بریفنگز سنی ہیں یہ ان میں سے سب سے اعلیٰ تھی۔‘
ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار سینیٹر ایلزبتھ وارنر نے جنرل سلیمانی کو ہلاک کرنے کے انتظامیہ کے جواز پر شک کا اظہار کیا۔
امریکی سینیٹ میں اقلیت کے رہنما چک شومر نے کہا کہ ’بہت سارے اہم سوالات تھے جن کے جوابات نہیں دیے گئے اور ہمیں مستقبل کے حوالے سے کوئی پلان نظر نہیں آتا۔ جب سخت سوالات آنا شروع ہوئے تو انتظامیہ کے کچھ واک آؤٹ کر گئے۔‘

سینیٹر ایلزبتھ وارنر نے جنرل سلیمانی کو ہلاک کرنے کے انتظامیہ کے جواز پر شک کا اظہار کیا، فوٹو: اے ایف پی

سینیٹر روئے بلنٹ کا کہنا تھا کہ ’صدر ٹرمپ نے دشمنوں اور دوستوں کو پیغام دیا ہے کہ وہ مشکل فیصلے لے سکتے ہیں۔‘
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ڈیمو کریٹ سینیٹر کرس مرفی نے اس بات کو سراہا کہ صدر ٹرمپ نے امریکی فوج کو ’روایتی جنگ کے راستے‘ سے کھینچ لیا ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ صدر کی جانب سے ایران پر نئی پابندیاں لگانے سے ’یہ نہیں لگتا کہ ہم حقیقی معنوں میں کشیدگی کو کم کرنا چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یاد کریں، ایران نے اشتعال انگیزی کا آغاز اس وقت کیا جب ہم نے ان پر پابندیاں لگائیں۔ یہ وقت ہی بتائے گا، لیکن مجھے نہیں لگتا یہ  فیصلہ کشیدگی کو کم کرنے میں کارگر ثابت ہو گا۔‘

شیئر: