Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آٹا بحران: حکومتی دعوؤں کی حقیقت کیا؟

صوبائی حکومتیں آٹے کا بحران نہ ہونے کے دعوے کر رہی ہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا
پاکستان کی صوبائی حکومتیں دعویٰ کر رہی ہیں کہ ان کے صوبے میں کوئی بحران نہیں ہے، لیکن چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ مسلسل گندم اور آٹے کے بحران کے حوالے سے نوٹس بھی لے رہے ہیں اور پے در پے اجلاس کر کے فیصلے بھی کر رہے ہیں۔
ایک طرف خیبرپختونخوا حکومت اپنے وزیراعلی کی قائدانہ صلاحیتوں پر اترا رہی ہے کہ ان کی دوراندیشی کے باعث بحران ٹل گیا ہے، تو دوسری جانب پنجاب حکومت بھی دعوے کر رہی ہے کہ اس نے نہ صرف کے پی کے بلکہ دوسرے صوبوں کے لیے بھی اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے ہیں۔
سندھ حکومت وفاق حکومت کو نا اہل کہہ کر سارا ملبہ ان پر ڈال رہی ہے تو پنجاب حکومت سندھ کو گندم خریداری نہ کرکے بحران کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے۔
بلوچستان حکومت کا کہنا ہے کہ افغانستان کو گندم نہ بیچی جاتی تو صورت حال مختلف رہتی تاہم اب وزیر اعلی نے نوٹس لے لیا تو پریشانی کی کوئی بات نہیں، وفاق بھی مدد کو آن پہنچا ہے۔

بحران پیدا کیوں ہوا؟

گزشتہ سال 2018-19ء میں گندم کی پیداوار کا تخمینہ دو کروڑ 69 لاکھ ٹن لگایا گیا تھا لیکن اصل پیداوار دو کروڑ 50 لاکھ ٹن سے کم یعنی دو کروڑ 47 لاکھ ٹن رہی۔ ملک میں گندم کی ماہانہ کھپت 2 لاکھ ٹن ہے لہٰذا دو کروڑ 47 لاکھ ملین ٹن کی مجموعی پیداوار ملکی ضروریات کے لیے کافی تھی۔ اس کے ساتھ ہی پنجاب میں بھی گزشتہ مالی سال کی گندم کے ذخائر موجود تھے۔ پنجاب میں گندم کا ہدف 40 لاکھ ٹن تھا لیکن دستیاب 35 لاکھ ٹن تھی۔
آغاز میں بحران نے سندھ سے اس وقت سر اٹھانا شروع کیا جب صوبے کی جانب سے گندم نہ خریدنے  کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کی بڑی وجہ گندم کی خریداری کے معاملے پر نیب اور دیگر تحقیقاتی اداروں کی جانب سے سیاسی رہنماوں اور حکام کو تحقیقات کا سامنا تھا۔
بعد ازاں بلوچستان میں بھی بحران سر اٹھانے لگا جس نے کے پی کے اور پنجاب کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
اعداد و شمار کے مطابق حکومت نے گزشتہ سال فروری میں 5 لاکھ ٹن گندم برآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔ گندم کی برآمدات کے لیے جنوری میں بولیاں طلب کی گئی تھیں جس میں فی ٹن 32 ہزار 759 روپے تک کی بولیاں موصول ہوئیں تھی۔
لیکن چار ماہ بعد جون میں ہی وفاقی وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی نے گندم برآمد کرنے پر پابندی تجویز کی، جسے وفاقی حکومت نے مسترد کر دیا۔

جولائی میں ای سی سی نے گندم برآمد کرنے پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا جس پر عملدرآمد ستمبر میں جا کر شروع ہوا۔ اس کے باوجود افغانستان کو گندم کی فراہمی کسی نہ کسی شکل میں جاری رہی۔
یہ وہ وقت تھا جب ملک میں گندم اور آٹے کا بحران زور پکڑنے لگا اور خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ پنجاب نے اپنے بارڈر پر نقل و حمل پر پابندی عائد کر دی۔
وزیر اعظم نے نوٹس لیا، وفاقی مشینری حرکت میں آئی۔ پنجاب سے گندم کی کے پی کے کو فراہمی بحال ہوئی اور گندم برآمد کرنے والی حکومت نے تین لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

کیا بحران ٹل گیا ہے؟

اردو نیوز نے اس ضمن میں چاروں صوبوں کے وزرا اور حکام سے بات چیت کی ہے۔ صوبائی وزرا کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے صورت حال پر قابو پا لیا ہے اور ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں جس سے نہ صرف وقتی طور پر بحران ٹل گیا ہے، بلکہ ذمہ داران کے خلاف کارروائی بھی کی جا رہی ہے۔

پنجاب

وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی زیرصدارت اجلاس میں پنجاب حکومت نے خیبرپختونخوا کے لیے خیرسگالی کے طور پر روزانہ کی بنیاد پر 5 ہزار ٹن گندم بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اردو نیوز سے گفتگو میں صوبائی وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری نے کہا کہ ’بڑی ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں کہ پنجاب میں کسی قسم کا کوئی بحران نہیں ہے۔ سندھ بلوچستان اور کے پی کے میں بحران ہو تو بھی پنجاب بڑے بھائی کی طرح ان کو گندم فراہم کرنے کی پوزیشن میں ہے۔‘

پنجاب کے وزیر خوراک نے بتایا کہ ’جو گندم درآمد کی جا رہی ہے وہ پنجاب کے لیے نہیں بلکہ سندھ کے لیے ہے. فوٹو: اے ایف پی

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’پنجاب میں تو آٹا فلور ملز مالکان سے طے شدہ قیمت سے بھی کم مل رہا ہے۔ کچھ چکی مالکان زیادہ منافع کے چکر میں 70 روپے کلو آٹا بیچنا چاہتے ہیں۔ اگر ان کو گندم 2100 روپے من بھی ملے تب بھی ریٹ 70 روپے نہیں بنتا۔ ان کو تو 1800 روپے میں مل رہا ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’سیل پوائنٹ اور ٹرک اس لیے مارکیٹ میں بھیجے تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ صوبے میں گندم اور آٹا موجود ہے۔ کل 367 سیل پوائنٹ اور 187 ٹرک مارکیٹ میں تھے لیکن صرف 65 فیصد آٹا فروخت ہوا۔‘
پنجاب کے وزیر خوراک نے بتایا کہ ’جو گندم درآمد کی جا رہی ہے وہ پنجاب کے لیے نہیں بلکہ سندھ کے لیے ہے کیونکہ سندھ حکومت نے اس مرتبہ گندم کی خریداری نہیں کی تھی۔‘

سندھ

سندھ کے وزیر خوراک اسماعیل راہو نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’خریداری نہ کرنے کے باوجود ہمارے پاس وافر مقدار میں گندم موجود ہے۔ سکھر اورلاڑکانہ کے گوداموں میں ساڑھے تین لاکھ ٹن گندم موجود ہے۔
پاسکو سے ایک لاکھ ٹن گندم مل چکی ہے۔ تین لاکھ ٹن ملنا ابھی باقی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’وفاقی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف گڈز ٹرانسپورٹر کی ہڑتال کی وجہ سے سپلائی متاثر ہوئی جس سے وقت طور پر مسئلہ پیدا ہوا۔اب سپلائی بحال ہوگئی ہے تو مارکیٹ میں 45 روپے کلو آٹے کی فراہمی بھی یقینی بنا رہے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’جب تک سونامی کی حکومت موجود ہے بحران بھی موجود رہیں گے۔ کبھی ٹماٹر، کبھی آٹا، کبھی تیل اور کبھی کوئی طوفان منڈلائے گا۔ کیوں کہ سلیکٹڈ حکومت کی پالیسیاں اور منصوبہ بندی عوام کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ مہنگائی کے ذریعے کمائی کر رہے ہیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں اسماعیل راہو نے کہا کہ ’تحریک انصاف والے بحران کا ذمہ دار سندھ حکومت کو ٹھہراتے ہیں۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم نے نوٹس ہی اس وجہ سے لیا کہ پنجاب میں بحران پیدا ہوا۔ ورنہ چھوٹے صوبے کے لیے وہ کبھی نوٹس نہیں لیتے بے شک وہ کے پی کے ہی کیوں نہ ہو۔‘
انھوں نے کہا کہ ’سندھ کے نام پر جو گندم درآمد کی جا رہی ہے وہ جب پہنچے گی تب تک ہماری اپنی گندم مارکیٹ میں آ چکی ہوگی۔ وفاق بتائے کہ انھوں نے اپنی ضروریات کے برعکس گندم برآمد کیوں کی تھی اور فائدہ کس کو پہنچایا تھا؟‘

اس وقت صوبے میں 20 کلو آٹے کی قیمت 800 سے بڑھ کر 1200 تک پہنچ چکی ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

خیبر پختونخوا

حالیہ دنوں میں سب سے زیادہ بحرانی صورت حال خیبر پختونخوا میں ہی دیکھنے کو ملی جہاں آٹا خریدنے والوں کی طویل قطاریں میڈیا پر دکھائی گئیں اور لوگ صوبائی حکوت سے خاصے نالاں دکھائی دیے۔
دوسری جانب صوبائی وزرا کے بیانات بھی زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھے۔ اس وقت صوبے میں 20 کلو آٹے کی قیمت 800 سے بڑھ کر 1200 تک پہنچ چکی ہے۔
تاہم پنجاب کی جانب سے گندم اور آٹے کی فراہمی کی بحالی کے بعد وہ بھی صورت حال میں تبدیلی کے دعویدار ہیں۔ خیبر پختونخوا میں آٹے کی قلت کے باعث نان بائیوں نے روٹی کی قیمتوں اضافے کا اعلان کر رکھا ہے تو صوبائی حکومت کی جانب سے اس کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ’ لگتا ایسا ہے کہ نان بائیوں نے پہلے سے ہی ہڑتال کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور وہ اس صورتحال سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے،  لیکن چونکہ اب نہ تو آٹے کی قلت ہے اور نہ ہی آٹا مہنگا ہوگا اس لیے روٹی کی قیمت بڑھانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’وزیراعلی محمود خان نے بروقت اقدام اٹھایا جس کی وجہ سے پنجاب نے آٹے کی ترسیل پر پابندی ختم کردی کیونکہ اوپن مارکیٹ سے آٹا خرید کر لایا جاتا ہے اس لیے ایک دو دن خریداری میں لگ جاتے ہیں اور انشاء اللہ آج شام سے یا کل سے تمام مارکیٹوں میں آٹا وافر مقدار میں دستیاب ہوگا۔‘

بلوچستان

بلوچستان کی حکومت واحد حکومت ہے جو تسلیم کر رہی ہے کہ اس وقت صوبے میں بحرانی کیفیت ہے جو آئندہ دس روز تک بہتر ہو جائے گی، تاہم صوبائی وزیر خواراک سردار عبدالرحمان کھیتران کے مطابق یہ بحران مجموعی ملکی صورت حال کی وجہ سے ہے۔
اردو نیوز کے نامہ نگار زین الدین احمد سے گفتگومیں انھوں نے کہا کہ ’آئندہ دو ماہ میں ہماری فصل آرہی ہے یہ فصل بلوچستان کے لیے 2سال کی ضرورت پوری کرسکتی ہے۔ ہماری زیادہ تر گندم ضلع نصیرآباد سے خریدی جاتی ہے تاہم وہاں سیلاب اور بارشوں کی وجہ سے گندم کافی حد تک خراب ہوچکی تھی۔ لہٰذا ہم نے خریداری نہیں کی اس کے باوجود ہمارے پاس پرانا سٹاک موجود تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’گزشتہ دو تین سال کا حساب تو نہیں دے سکتے، تاہم ہم نے اس سال ذمہ داری پوری نہ کرنے پر صوبائی سیکرٹری خوراک کو معطل کر دیا تھا۔‘
دوسری جانب وزیر اعلی بلوچستان جام کمال نے بھی موجودہ بحران کا نوٹس لیتے ہوئے ضلعی انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ سرکاری نرخوں پر آٹے کی فروخت یقینی بنائیں۔ صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ذخیرہ اندوزی کرنے اور مہنگے داموں آٹا فروخت کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

بلوچستان کی فلورملز ایسوسی ایشن کے ترجمان عبدالواحد بڑیچ کا کہنا ہے کہ بحران آج سے نہیں بلکہ کئی ماہ سے ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

فلور ملز ایسوسی ایشن کا موقف

پاکستان فلور ملز ایسوسی کے ترجمان عاصم رضا نے ’اردو نیوز‘ سے گفتگو میں بتایا کہ حکومت نے ابتدا میں فلور ملز کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی لیکن جلد ہی ان کو سمجھ آگئی کہ غلطی کہیں اور ہوئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’حکومت آٹا چکی والوں کے خلاف کارروائی کرے۔ ملز مالکان حکومت کے ساتھ طے شدہ معاملات پر کاربند ہیں۔ فلور ملز میں معمول کے چھاپوں اور جرمانوں کی پورے سال کی کارروائی کو موجودہ بحران سے جوڑ کر اپنی غلطی چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘
بلوچستان کی فلورملز ایسوسی ایشن کے ترجمان عبدالواحد بڑیچ کا کہنا ہے کہ بحران آج سے نہیں بلکہ کئی ماہ سے ہے۔
سب سے پہلے گندم کی قیمتیں بلوچستان میں بڑھیں لیکن کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ بلوچستان حکومت نے 3 سال سے گندم خریداری نہیں کی۔ فلور ملز مالکان پنجاب سےگندم خریدنے پر مجبور ہیں۔ پنجاب حکومت کی پابندی کے باعث بحران مزید بڑھ گیا۔ ان کے مطابق صوبے میں اس وقت آٹے کے 20 کلو تھیلے کی قیمت 12 سو تک پہنچ گئی ہے۔

شیئر: