Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کیا میڈیکل کی ڈراپ آؤٹ ہی نواز شریف کی اکلوتی اُمید ہے‘

حکومت نے گزشتہ ماہ جنوری میں مریم نواز کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز پارٹی کی نائب صدر بنائے جانے سے قبل بھی میدان سیاست اور میڈیا میں فعال تھیں تاہم گزشتہ کچھ عرصے سے وہ اہم مواقع پر بھی خاموش رہی ہیں۔ اس خاموشی کی وجہ سے ان کا ذکر بھی کم ہوا تاہم گزشتہ روز نواز شریف سے متعلق ایک خبر نے انہیں سوشل میڈیا ٹائم لائنز کا اہم موضوع بنا ڈالا۔
لندن میں موجود سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے اپنی صاحبزادی مریم نواز کے آنے تک علاج کرانے سے انکار کی خبر پر مریم نواز کی پاکستان میں موجودگی یا ان کا لندن جانا موضوع گفتگو بن گیا۔
نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کے حوالے سے سامنے آنے والی خبر میں کہا گیا تھا کہ مریم نواز کے آنے تک علاج نہ کرانے کا فیصلہ کرنے والے نواز شریف کا کارنری انٹروینشن کا آپریشن موخر کر دیا گیا ہے۔
سابق فوجی افسر اور دفاعی تجزیہ کار اعجاز اعوان نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر لکھا ’نواز شریف کی جانب سے مریم نواز کے برطانیہ آنے تک علاج نہ کرانے کا فیصلہ بیماری سے متعلق بیانیے سے مذاق ہے۔ یہ دراصل ہماری قومی جہالت کو خراج تحسین ہے‘۔

ضیا نامی ہینڈل نے مریم نواز کے لندن بلائے جانے کی مخالفت کے لیے طنز کا رنگ اختیار کیا۔ انہوں نے لکھا کہ اس کا جواز تو بنتا ہے، کیوں کہ ڈاکٹر مریم دنیا بھر میں فعال امراض قلب سے متعلق ٹیموں کی سربراہ ہیں۔

ملیحہ ہاشمی نامی ٹوئٹر صارف نے نواز شریف کے علاج کے لیے مریم نواز کی موجودگی کے میرٹ کو گفتگو کا موضوع بنایا۔ انہوں نے اس مطالبے کو انڈین انٹرٹینمنٹ چینل سٹار پلس کے سیریل سے تشبیہہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’جہاں میڈیکل سکول ڈراپ آؤٹ ہی آپ کو بچانے کے لیے اکلوتی امید رہ جاتی ہے‘۔

مریم نواز کے بیرون ملک جانے کی مخالفت کرنے والی کی کمی نہ تھی تو بہت سے ایسے بھی تھے جنہوں نے ایسا نہ کرنے پر سوال اٹھایا۔ ذوالفقار نامی صارف نے لکھا کہ ضمانت پر موجود کوئی بھی فرد بیرون ملک سفر کر سکتا ہے۔ ضمانت رکھنے والے سبھی افراد کو یہ اجازت دی جانی چاہیے۔

پنجاب حکومت کی ترجمانی کی ذمہ داری سے ہٹائے جانے والے شہباز گل بھی گفتگو کا حصہ بنے۔ انہوں نے لکھا کہ ’مریم نواز مقدمات کا سامنا کئیے بغیر پاکستان سے نہیں جائیں گی‘۔

جس پر ’پراؤڈ سدھن‘ نامی ہینڈل نے ان سے استفسار کرتے ہوئے لکھا ’اس حکومت کو مریم نواز سے اتنا ڈر کیوں لگتا ہے‘۔

احمد نامی صارف نے مریم نواز کے جانے کی براہ راست حمایت و مخالفت کے بجائے گزشتہ واقعات کا حوالہ دیا۔ انہوں نے لکھا ’باقیوں کے کون سے مقدمے پورے ہوئے یا گنہگاروں کو سزا ملی۔ مریم کو بھی جانے دیں، قوم اور ریاست کے وسائل اور وقت مت برباد کریں‘۔

اپوزیشن لیڈر اور ن لیگ کے صدر شہباز شریف نے بھی اپنے بھائی کی مریم نواز سے متعلق خواہش پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ مریم نواز کو والد کے پاس جانے کی اجازت دی جائے۔ 
انہوں نے کہا تھا کہ ’نوازشریف ابھی تندرست نہیں اور ان کی صحت غیر مستحکم ہے۔ ان کے علاج کے لیے ضروری عمل میں دو مرتبہ تبدیلی کرنا پڑی کیونکہ مریم نوازشریف جو ایسے وقت میں اپنے والد کے پاس رہنا چاہتی ہیں، کو پاکستان سے آنے کی اجازت نہیں دی گئی‘۔
پاکستان میں احتساب کے ذمہ دار ادارے نیب کی جانب سے جنوری میں حکومت کو لکھا گیا تھا کہ مریم نواز کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا جائے، جس کے بعد تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے ن لیگی رہنما کا نام ای سی ایل پر ڈال دیا گیا تھا۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: