Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گھریلو تشدد: ہیلپ لائن پر پہلے دن 34 کالز موصول

ہیلپ لائن موجودہ صورت حال میں صبح 10 سے رات 10 تک یہ کام کررہی ہے (فوٹو:سوشل میڈیا)
ایسے میں جب کورونا ائرس کی وجہ سے آدھی سے زیادہ دنیا لاک ڈاون میں ہے دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
پاکستان میں بھی ان واقعات میں اضافے کے خدشے کے پیش نظر وزارت انسانی حقوق کی طرف سے ایک ہیلپ لائن قائم کی گئی ہے جس کو پہلے دن تیس سے زائد کالز موصول ہوئی ہیں۔
وزارت کی ایک  ترجمان ظل ہما نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کے ادارے کی جانب سے پہلے ہیلپ لائن موجود تھی، تاہم لاک ڈاون کی وجہ سے گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافے کے پیش نظر نئی ہیلپ لائن متعارف کروائی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ' اب تک ہمارے ادارے کو 34 فون کالز آئی ہیں جن میں سے نوے فیصد کالز میں لوگوں نے راشن کی فراہمی سے متعلق پوچھا ہے جب کہ دس فیصد کالز میں لوگوں نے صحت سے متعلق ہسپتالوں کی معلومات لیں۔ 
تاہم اُن کا کہنا تھا کہ 'گھریلو تشدد کی شکایت کی صورت میں متاثرہ شخص کو بتایا جائے گا کہ وہ کس طرح اپنی شکایت درج کروائے، اور اگر پولیس سٹیشن میں ان کی شکایت کو درج نہیں کیا جا رہا تو ادارہ فوراً ایس ایس پی کو شکایت درج کرنے کا کہے گا۔'
طل ہما نے مزید بتایا کہ اگر ایس ایس پی شکایت درج نہیں کریں گے تو ان کو لکھ کر وجہ بتانا پڑئے گی۔ عام دنوں میں ہیلپ لائن دن میں 16 گھنٹے کام کرتی تھی۔ تاہم موجودہ صورت حال میں صبح 10 سے رات 10 تک یہ کام کررہی ہے۔ 

گھریلو تشدد کی وکیل فاطمہ بٹ کہتی ہیں کہ خواتین کو خود قدم اٹھانا چاہیے اور پولیس سٹیشن جا کر شکایت درج کرانی چاہیے (فوٹو:سوشل میڈیا)

گگریلو تشدد کے خلاف کام کرنے والی وکیل فاطمہ بٹ نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی ہیلپ لائنز پہلے سے موجود ہیں مگر یہ اُس وقت کارآمد ثابت ہوں گئی جب حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ لوگوں کے مسائل کو حل کیا جائے۔
فاطمہ بٹ سمجھتی ہیں کہ اس طرح کی ہیلپ لائنز کا فائدہ اس لیے نہیں ہے کیونکہ وزارت کسی بھی شکایت کو خود حل کرنے کے بجائے متاثرہ شخص کو متعلقہ اداروں سے رابطے کا کہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ لاک ڈاون کی وجہ سے پوری دنیا میں گھریلو تشدد میں 60 فیصد اضافہ ہوا ہے، ایسے میں خواتین کو خود قدم اٹھانا چاہیے اور پولیس سٹیشن جا کر شکایت درج کرانی چاہیے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ماہین غنی نے بھی اپنے ٹویٹر اکاونٹ پر اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ اس مشکل وقت میں پاکستان میں بچوں اور خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ متوقع ہے۔

شیئر: