Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پبلک سرونٹ اپنے باس کو لاٹھی سے پیٹ رہا ہے‘

صارفین کا مطالبہ ہے کہ عام شہریوں سے بدسلوکی کا رویہ تبدیل ہونا چاہیے (فوٹو: ایچ آر ڈبلیو)
پاکستان میں سوشل میڈیا کی ٹائم لائنز پر صوبہ خیبرپختونخوا کے ایک سرکاری افسر کی جانب سے سڑک کنارے پکوڑے بیچتے شہری پر تشدد کی ویڈیو پر تبصرے کرنے والے اس عمل پر ناپسندیدگی کا اظہار کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا صارفین ویڈیو کے مناظر کا حوالہ دیتے ہوئے مختلف سوالات بھی اٹھا رہے ہیں کہ اسسٹنٹ کمشنر کو کون سا قانون اجازت دیتا ہے کہ کسی پر تشدد کرے؟ اگر وہ قانونی طور پر ایسا نہیں کر سکتے تو ان کے خلاف تادیبی کارروائی کب کی جائے گی۔
کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن کے دوران جہاں تجارتی مراکز یا تو بند رہے یا مخصوص اوقات میں ہی کھلے رکھنے کی اجازت ملی وہیں کھانے پینے اور علاج معالجہ سے وابستہ مراکز کے لیے یہ شرائط خاصی نرم رہیں۔ اس دوران متعدد مقامات پر یہ دیکھا گیا کہ دکانیں تو بند رہیں تاہم ٹھیلوں یا چھوٹے موٹے سٹالز کے ذریعے مختلف اشیا فروخت کی جاتی رہی ہیں۔
اسسٹنٹ کمشنر خار، باجوڑ کی چند سیکنڈ کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ بند دکانوں کے سامنے ایک گیس سیلنڈر، چولہا اور چند برتن رکھے پکوڑے فروخت کرنے والے کے قریب پہنچتے ہیں اور اپنے ہاتھ میں موجود لاٹھی سے باریش شخص کو پیٹ کر وہاں سے ہٹنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
صارفین نے واقعے پر غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے معاملے کو ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ قرار دیا تو کسی نے سوال کیا کہ ’آپ خود تو تنخواہ لے لو گے لیکن وہ غریب اپنا اور بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے کیا کرے؟‘۔ ایسے صارف بھی گفتگو کا حصہ بنے جنہوں نے اعلی تعلیم کے باوجود ایسا رویہ اپنانے پر ناپسندیدگی ظاہر کی۔

وقاص نامی صارف سرکاری افسر کی بدسلوکی پر اپنے غم و غصہ کے اظہار کے لیے انہیں سول سرونٹ کا مقام یاد دلاتے ہوئے تشدد کا شکار فرد کی حیثیت کی جانب متوجہ کرتے دکھائی دیے۔

عام فرد پر تشدد کو آسان قرار دینے والوں میں ایسے افراد بھی تھے جنہوں نے بااثر طبقات کی مبینہ قانونی خلاف ورزیوں کی مثالیں دے کر خواہش ظاہر کی کہ کیا ان کے خلاف بھی ایسا ہو سکے گا؟

کتابوں اور بانی پاکستان قائداعظم کے اقوال کا حوالہ دیتے ہوئے واجد پیر نامی صارف نے طنز کرتے ہوئے لکھا ’پبلک سرونٹ اپنے باس کو لاٹھی سے پیٹ رہا ہے۔

تشدد اور اس کا انداز ہی نہیں بلکہ اثرات بھی زیر بحث آئے۔ ریحان ارشد نے لکھا ’اس طرح کے اعمال لوگوں کو مجبور کریں گے کہ وہ غیر قانونی طریقوں سے دولت حاصل کریں۔ یہ قابل مذمت ہے، انہیں لازما ایسی جگہ مہیا کی جانی چاہیے جہاں وہ کام جاری رکھ سکیں۔

کچھ صارفین نے معاملے کی اپ ڈیٹس سے دوسروں کو باخبر رکھنے کی کوشش کی اور بتایا کہ چند روز قبل کی اس ویڈیو میں دکھائی دینے والے اسسٹنٹ کمشنر کی جانب سے متاثرہ فرد سے معافی مانگ لی گئی ہے۔ کچھ لوگوں نے اس عمل کی تحسین کی جب کہ متعدد ایسے تھے جنہیں تشدد کے بعد معافی مانگ لینا ناکافی لگا۔

ندیم خادم زیر بحث معاملے سے ملتے جلتے ایک اور واقعے کے ذکر کے ساتھ سامنے آئے تو ساتھ ہی شکوہ کیا کہ ’اس پر بھی کوئی ایکشن نہیں ہوا تھا۔

اسسٹنٹ کمشنر کے تشدد کا معاملے پر کچھ صارفین کی جانب سے وفاقی وزیرانسانی حقوق شیریں مزاری کو ٹیگ کیا گیا تو انہوں نے صوبائی وزیر خیبرپختونخوا تیمور خان جھگڑا کا حوالہ دے کر معلومات دوسروں سے بھی شیئر کیں۔

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اقدامات اور ان پر عمل نہ کرنے کے تناظر میں کچھ صارفین نے اس عمل کو درست قرار دیا۔ ایسی ہی ایک ٹویٹ میں لکھا گیا کہ ’لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔

واضح رہے کہ پاکستان کے نیشنل کمانڈ سینٹر کے ڈیٹا بیس کے مطابق 14 مئی کو رات ساڑھے گیارہ بجے تک کے اعدادوشمار کے مطابق خیبرپختونخوا میں کورونا وائرس سے متاثر افراد کی تعداد 5423 ہو چکی ہے۔
صوبے میں اب تک 37 ہزار سے کچھ زائد افراد کے کورونا ٹیسٹ کیے گئے ہیں جب کہ صوبے میں وبا سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 284 ہے، یہ ملک میں مریضوں کی تعداد اور جانی نقصان کے اعتبار سے سب سے زیادہ شرح اموات (پانچ فیصد) ہے۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: