Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا کی انتہا کو کیسے جانچا جاتا ہے؟

پاکستان میں ماہرین اور سرکاری سطح پر بھی یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ملک میں کورونا کیسز کی انتہاء مئی اور جون میں دیکھنے کو ملے گی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں ماہرین اور سرکاری سطح پر بھی یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ملک میں کورونا کیسز کی انتہاء مئی اور جون میں دیکھنے کو ملے گی۔ تاہم وزیر اعظم  نے اپنے خطاب میں جولائی اور اگست میں کیسز عروج پر پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
پیر کو پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر عوام کی جانب سے احتیاط نہ برتی گئی تو مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 
وزیراعظم نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ ملک میں کورونا کیسز کی انتہا جولائی کے آخر یا اگست کے آغاز میں دیکھنے کو ملے گی۔ 
اس سے قبل پاکستان میں کورونا کیسز کے حوالے سے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر کورونا کیسز کے انتہاء پر پہنچنے کے مختلف اوقات بتائے گئے تھے۔ 
یورپ اور امریکہ سمیت کئی ممالک کورونا وائرس کی انتہاء سے گزر چکے ہیں اور اب کیسز میں بتدریج کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بھی یہ انتظار کیا جا رہے کہ کیسز کی تعداد میں کمی کب سے شروع ہوگی۔ 
امریکہ کی یئیل یونیورسٹی میں پبلک ہیلتھ میں ماسٹرز کرنے والے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ کے سابق سربراہ ڈاکٹر سعید اختر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کسی بھی  وبائی مرض کے پھیلنے کی متوقع انتہائی حد جانچنے کے لیے 'آر ناٹ سسٹم' استعمال کیا جاتا ہے۔ 


ڈاکٹر سعید اختر کے مطابق پاکستان میں ٹیسٹ کی تعداد آبادی کے لحاظ سے انتہائی کم ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

'آر ناٹ بنیادی طور پر کسی بھی وبائی مرض کی ایک انسان سے دوسرے انسان تک منتقل ہونے کی شرح ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں یہ شرح دو عشاریہ پانچ سے تین فیصد ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ایک انسان ڈھائی سے تین مزید افراد میں یہ وائرس منتقل کر سکتا یے۔ جتنی یہ شرح زیادہ ہوگی اتنا ہی وباء کے پھیلنے کے امکانات زیادہ ہوں گے اور اسی طرح جب آر ناٹ ایک یا ایک سے کم پر آجاتا ہے تو کیسز کے گراف میں گراوٹ آجاتی ہے۔'
ڈاکٹر سعید اختر کے مطابق پاکستان میں ایک مریض کتنے افراد میں وائرس منتقل کر رہا ہے اس کا کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ 'پاکستان میں ٹیسٹ کی تعداد آبادی کے لحاظ سے انتہائی کم ہے اس لیے اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ کیسز کب اپنی انتہاء کو پہنچیں گے اور اس کے بعد ان میں کمی آئے گی۔'

'پاکستان میں کورونا کے 80 فیصد مریض ایسے ہیں جن میں کوئی علامات ہی ظاہر نہیں ہوتیں۔' فائل فوٹو: اے ایف پی

کیا پاکستان میں وباء جولائی اور اگست میں انتہاء کو پہنچ سکتی ہے؟
گلوبل ہیلتھ سٹریٹیجسٹس اینڈ ایمپلیمنٹرز کے چیف ایگزیکٹو اور عالمی ادارہ صحت کے ساتھ وبائی امراض کے حوالے سے کام کرنے والے ڈاکٹر رانا فواد اصغر نے اردو نیوز کو بتایا  کہ 'یہ کہنا درست نہیں کہ پاکستان میں وباء جولائی یا اگست میں اپنی انتہاء کو پہنچے گی۔ 'اس اندازے کے لیے ٹیسٹنگ کی تعداد میں تیزی سے اضافہ لانے کی ضرورت ہے۔'
ڈاکٹر رانا فواد اصغر کے مطابق 'پاکستان میں کورونا کے 80 فیصد مریض ایسے ہیں جن میں کوئی علامات ہی ظاہر نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے لوگوں کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ان میں وائرس موجود ہے اس لیے ملک میں کتنے مریض ہیں اور کب تک کیسز انتہاء کو پہنچیں گے اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔' 

'عید الاضحی کے موقع پر اگر نرمی برتی گئی تو کیسز میں خوفناک حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔' فائل فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں آغاز میں لاک ڈاؤن لگا دیا جاتا تو کیسز کے بڑھنے کی رفتار کو کم کیا جاسکتا تھا۔ 'لاک ڈاؤن کا فائدہ کسی بھی وبائی مرض میں ابتدائی دنوں میں ہوتا ہے اور اس کا مقصد صرف اور صرف وباء کو تیزی سے پھیلنے سے روکنا ہوتا یے۔' 
انہوں نے یہ بھی خدشہ ظاہر کیا کہ عید الاضحی کے موقع پر اگر نرمی برتی گئی تو کیسز میں خوفناک حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ 
ڈاکٹر سعید اختر کے مطابق جب کسی بھی ملک کی کل آبادی کا کم از کم ایک یا دو فیصد آبادی کے ٹیسٹ لیے جائیں تو وائرس پھیلنے کا اندازہ لگایا جا سکتا یے۔'اس وقت 20 فیصد افراد کے ٹیسٹ مثبت آرہے ہیں ،جب تک ٹیسٹ کی کل تعداد 20 سے 40 لاکھ افراد کے ٹیسٹ نہ لیے گئے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وائرس کے کیسز میں کمی دیکھنے کو ملے گی۔' 
ڈااکٹر سعید اختر پاکستان میں کیسز بڑھنے کی ایک وجہ عید سے قبل لاک ڈاؤن میں نرمی کو قرار دیتے ہیں۔ 'رمضان میں جب لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی جس سے ایسے افراد جن میں وائرس موجود تھا لیکن ان میں علامات نہیں تھیں ان سے بڑی تعداد میں وائرس منتقل ہوا۔ اگر تین ہفتوں تک روزانہ بیس ہزار ٹیسٹ لیے گئے تو مثبت رہورٹ ہونے کی شرح 50 فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔'

شیئر: