Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا کی ویکسین تیار کرنے کی دوڑ، دنیا کہاں کھڑی ہے؟

ویکسین کے انسانوں پر تجربات کے لیے صحت مند افراد کو بطور رضا کار خود کو پیش کرنا پڑتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے خلاف ویکیسن تیار کرنے کی دوڑ جاری ہے اور اس وقت طبی ماہرین 125 سے زائد ویکسینز بنا رہے ہیں جن کو ممکنہ طور پر عالمی وبا کی روک تھام کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق عام طور پر ویکیسن کی تیاری کے لیے برسوں کی تحقیق اور ٹیسٹنگ درکار ہوتی ہے جس کے بعد اس کو استعمال میں لایا جاتا ہے تاہم سائنسدانوں کو امید ہے کہ وہ اگلے سال تک کورونا کے خلاف ایک محفوظ اور مؤثر ویکسین بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
نیویارک ٹائمز نے ایسی ویکسینز کے بارے میں رپورٹ شائع کی ہے جن کو اس وقت انسانوں پر تجربات کے مراحل تک لایا جا چکا ہے۔
کسی بھی ویکسین کو استعمال کے قابل قرار دینے سے قبل اس کے تین مراحل ہوتے ہیں تاہم بعض پراجیکٹس میں موجودہ صورتحال میں ابتدائی مراحل کو یکجا کیا گیا ہے تاکہ ویکسین کی تیاری جلدی ممکن ہو سکے۔
کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے بعض ویکسینز اس وقت پہلے اور دوسرے مرحلے کے ٹرائلز میں ہیں جہاں ان کے تجربات سینکڑوں افراد پر کیے جا رہے ہیں۔
ویکسین کی لیبارٹری میں تیاری سے کلینیکل ٹرائلز تک کے مراحل میں عمومی طور پر یہ چوہوں اور بندروں پر آزمائی جاتی ہیں اور ان کے مدافعتی نظام کو پرکھا جاتا ہے۔
اسی طرح پہلے مرحلے میں محفوظ ٹرائل کے طور پر ویکیسن محدود افراد کو کم مقدار میں دی جاتی ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ کیا یہ ان کے مدافعتی نظام کو مضبوط کر رہی ہے
دوسرے مرحلے میں ویکسین کے ٹرائلز کو بڑھاتے ہوئے یہ سینکڑوں افراد کو دی جاتی ہے اور ان کو مختلف گروپوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، جیسے کہ بچوں اور بڑی عمر کے افراد کے گروپ بنائے جاتے ہیں تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ کیا ویکسین مختلف عمر کے افراد پر مختلف اثرات رکھتی ہے۔

دنیا کی بڑی ادویہ ساز کمپنیاں ویکیسن بنانے کی دوڑ میں شریک ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ان ٹرائلز میں مزید یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ ویکسین محفوظ ہے اور وہ مدافعتی نظام کو متحرک کرتی ہے۔
تیسرے مرحلے کے ٹرائلز میں سائنسدان ہزاروں افراد کو ویکسین دیتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ یہ ان میں سے کتنے لوگوں پر اثر کرتی ہے اور ان افراد کی حالت کا ان رضاکاروں سے موازنہ کیا جاتا ہے جن کو ادویات دی گئی ہوں۔
تیسرے مرحلے کے ان ٹرائلز میں یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ کیا ویکسین کسی خاص وبا کے خلاف حفاظت فراہم کرتی ہے۔ ہر ملک میں ادویات کی منظوری دینے والے ادارے یا محکمے ان ٹرائلز کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ ویکسین کو عام فروخت کا لائسنس جاری کیا جائے یا نہیں۔
رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت کے وارپ سپیڈ پروگرام کے تحت پانچ پراجیکٹس کو ویکسین بنانے کے لیے منتخب کیا گیا ہے تاکہ فیڈرل فنڈنگ سے اربوں ڈالر حاصل کیے جا سکیں۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق سارس کووڈ-ٹو جینوم کو سمجھنے کے لیے اس پراجیکٹ پر کام جنوری میں شروع کیا گیا۔ اس پراجیکٹ کے تحت انسانوں پر ویکسین کے تجربات مارچ کے مہینے میں شروع کیے گئے لیکن آگے بڑھنے کا راستہ غیر یقینی صورت حال کا شکار رہا۔

کورونا وائرس چین کے صوبے ہوبائی سے پھیلا تھا جہاں اب زندگی معمول پر آ چکی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

رپورٹ کے مطابق ان ٹرائلز میں سے کچھ ناکام ہوں گے اور بعض بغیر کسی نتیجے تک پہنچے ختم کر دیے جائیں گے لیکن ان میں سے کچھ اس حد تک کامیاب بھی ہوں گے جو انسانوں کے مدافعتی نظام میں وائرس کے خلاف طاقتور اینٹی باڈی پیدا کر سکیں۔
وارپ پروگرام کے تحت موڈرنا کمپنی نے مئی میں پہلے مرحلے میں آٹھ افراد پر تجربہ کیا جس کے نتائج پر ماہرین کا ردعمل اچھا نہ تھا۔ یہ امریکی کمپنی اب جولائی میں تیسرے مرحلے کے ٹرائلز پر نظر رکھے ہوئے ہے اور امید ظاہر کر رہی ہے کہ سال 2021 کے آغاز تک ویکسین تیار کر لے گی۔
جرمنی کی ادویہ ساز کمپنی بائیواین ٹیک نے نیو یارک کی کمپنی پفیزر اور چینی کمپنی فوسن فارما کے اشتراک سے ویکسین بنانے کا کام شروع کیا۔ مئی میں پفیزر نے ویکسین کے انسانوں پر ٹرائلز کا اعلان کیا۔ امریکی وارپ پروگرام سے فنڈز لینے والی کمپنی پفیزر کو امید ہے کہ وہ خزاں تک ویکسین کی کچھ لاکھ خوراکیں بنا سکے گی تاکہ ایمرجنسی استعمال میں لائی جا سکیں، اگر اس کے ٹرائلز کامیاب رہے۔

کورونا نے سب سے زیادہ امریکہ کو متاثر کیا جہاں 20 لاکھ کے لگ بھگ افراد میں وائرس کی تشخیص کی گئی۔ فوٹو: اے ایف پی

مئی میں امریکی کمپنی اینوویو نے ایک سٹڈی شائع کی جس کے مطابق ڈی این اے کی بنیاد پر بنائی جانے والی ویکسین نے چوہوں میں اینٹی باڈی پیدا کیے ہیں۔ اس ویکسین کے حفاظتی ٹرائلز اس وقت امریکی میں انسانوں پر کیے جا رہے ہیں اور جون کے اختتام پر جنوبی کوریا میں بھی اس کا آغاز ہوگا۔
امپیریل کالج لندن میں ماہرین نے ایک ویکسین تیار کی ہے جو وائرل پروٹین کو جسم میں متحرک کرتی تاکہ مدافعتی نظام کو طاقت فراہم کی جا سکے۔ اس ویکسین کے پہلے مرحلے کے ٹرائلز جون کی 15 تاریخ سے شروع کیے جائیں گے۔

شیئر: