Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ججز قابل احتساب ہیں تو حکومت بھی قابل احتساب ہے‘

حکومتی وکیل فروغ نسیم نے جواب دیا کہ صدر، وزیر اعظم اور وزیر قانون سب قابل احتساب ہیں۔ فوٹو: ٹوئٹر
پاکستان کی سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ ججز قابل احتساب ہیں تو حکومت بھی قابل احتساب ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ کیس میں اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ ریفرنس ٹھیک نہیں بنا تو ہوسکتا ہے حکومت کا بھی احتساب  ہو۔ 
حکومتی وکیل فروغ نسیم نے جواب دیا کہ بالکل صدر، وزیر اعظم اور وزیر قانون سب قابل احتساب ہیں۔ 'جائیداد جج کی اہلیہ کی ہیں لیکن لگتا ہے کٹہرے میں حکومت کھڑی ہے۔'
پیر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس کی کارروائی روکنے کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ بینچ نے کی۔ 
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ بیگم صاحبہ ایف بی آر کو مطمئن نہ کر پائیں تو اثاثے چھپانے کا کیس اہلیہ پر بنے گا۔ جج صاحب پر سارا الزام کیسے آئے گا۔ قانون دکھا دیں کہ خود کفیل اہلیہ وسائل بتانے میں ناکام ہوتی ہے تو پھر بوجھ جج پر آئے گا انضباطی کارروائی کا قانون بدل نہیں سکتا۔ 
فروغ نسیم نے کہا کہ جائیداد کی خریداری کی وضاحت نہ آنا بڑا اہم ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سوشل میڈیا کا دور ہے جج پر جو مرضی کیچڑ اچھال دیں۔ آپ کہیں گے کہ جج کی ساکھ خراب ہو گئی۔
فروغ نسیم بولے کہ جھوٹی خبر شیئر ہوتی ہے، زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔ یہاں پر جج کی اہلیہ اور بچوں کی لندن میں مہنگی جائیدادیں ہیں۔ یہ تاثر غلط ہوگا کہ جج صاحب اہلیہ کی جائیداد پر وضاحت نہیں دے رہے۔ 
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ قانون کے مطابق اہلیہ اور بچوں سے پوچھ لیں جائیداد کیسے خریدی۔ فروغ نسیم نے کہا کہ جج صاحب نے جائیداد کی خریداری کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار نہیں کیا۔ 

فروغ نسیم بولے کہ یہاں پر جج کی اہلیہ اور بچوں کی لندن میں مہنگی جائیدادیں ہیں۔ فائل فوٹو

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فروغ نسیم یہ بھی ذہن میں رکھیں کے عدالت کونسل کے اختیارات سے آگاہ ہے۔ ایک جج کو عمومی باتوں سے چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ آپ کا موقف ہے کہ اصل سوال جائیداد کی خریداری کے ذرائع کا ہے۔ آپ کے تمام الزامات میں کرپشن اور بد دیانتی کی بات نہیں۔ پاکستان بار اور سپریم کورٹ بار سمیت ملک کے تمام بارز جج کی دفاع میں آئے ہیں۔ بار کونسل کے مطابق جج پر بدنیتی اور کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔ جج بھی قابل احتساب ہیں۔ جج شیشے کے گھر میں رہتے ہیں۔ جج صاحب کہتے ہیں کہ جائیدادوں سے متعلق اہلیہ سے پوچھا جائے۔ 
فروغ نسیم نے کہا کہ وہ ان سب سوالوں کے جواب دیں گے۔ جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔ کیا ایک جج کی نجی زندگی میں اہلیہ اور بچے کی زندگی بھی شامل ہے۔ آپ کے سامنے انکم ٹیکس اور جوڈیشل کونسل کے متعین قوانین موجود ہیں۔ آپ ہمیں مختلف قوانین پڑھا رہے ہیں۔ آپ انکم ٹیکس اور جوڈیشل کونسل کے متعین قوانین کے تحت دلائل دیں۔ آپ کہتے ہیں بیرون ملک جائیداد رکھنا مناسب نہیں۔ آپ کے مطابق جج کی اہلیہ کو پبلک آفس ہولڈر خاوند کی وجہ سے مراعات ملی ہیں۔ ذہن میں رکھیں کہ مسئلے کا حل کیا ہے۔ آرٹیکل 116 خاوند اہلیہ کے اثاثے بتانے کا پابند نہیں۔

پاکستان کی سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ ججز قابل احتساب ہیں تو حکومت بھی قابل احتساب ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

اپنے دلائل میں وفاق کے وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ جج کی جانب سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کو کسی قانون کی خلاف ورزی تک محدود نہیں ہر سکتے۔ اہلیہ معزز جج کی فیملی کا حصہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ معزز جج اور اہلیہ دونوں نے لندن کی جائیدادیں ظاہر نہیں کی۔ آرٹیکل 63 میں اہلیہ کے زیر کفالت کے حوالے سے کوئی تفریق نہیں رکھی گئی۔ برطانیہ میں اہلیہ کی جانب سے بار کو خط لکھنے پر جج کے خلاف کارروائی ہوئی۔ پاکستان کا آئین غیر جانبدار ہے  آرٹیکل 209 میں اہلیہ کو زیر کفالت یا خود کفیل رکھنا بلا جواز ہے۔ کسی کا اپنے یا اہلیہ کے نام جائیداد ظاہر نہ کرنا قابل سزا جرم ہے۔ آرٹیکل 63 کے تحت جائیدادیں ظاہر نہ کرنے والا رکن اسمبلی اپنی رکنیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ جج بھی سروس آف پاکستان میں آتا ہے۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ فروغ نسیم صاحب کیا آپ کا یہی مقدمہ ہے؟ جو دلائل آپ دے رہے ہیں یہ آپکا مقدمہ نہیں ہے۔ آپ کی دلیل یہ تھی کہ ہمارا مقدمہ شوکاز نوٹس جاری ہونے کا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کا نقطہ یہ تھا مواد کونسل کے سامنے آنے کے بعد باقی چیزوں کی اہمیت نہیں رہی۔ 
فروغ نسیم نے جواب دیا کہ افتخار چوہدری کیس کا اطلاق موجودہ مقدمے پر نہیں ہوتا۔ جوڈیشل کونسل کے شوکاز نوٹس کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ الیکشن کمیشن کے پاس آنیوالے مواد پر از خود کاروائی کا اختیار ہے۔ الیکشن کمیشن نقائص پر مبنی درخواست پر کاروائی کر سکتا ہے۔ 

جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ قانون کے مطابق اہلیہ اور بچوں سے پوچھ لیں جائیداد کیسے خریدی۔ فائل فوٹو

جسٹس مقبول باقر نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کونسل کے سامنے جج کے خلاف آمدن سے زائد ذرائع کا مواد کیا تھا؟ کسی فورم پر یہ ثابت کریں کہ اہلیہ کو جائیداد خریدنے کیلئے جج نے پیسے دیے۔ فروغ نسیم نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے 2008.9 میں بطور وکیل اپنی آمدن ظاہر کی۔ وضاحت دینی ہے کہ پراپرٹیز کیسے خریدی گئیں۔ آج کے دن تک اس سوال کا جواب نہیں دیا گیا۔ 
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اہلیہ کو اپنے والدین والدین سے کچھ ملیں کیا وہ بتانا بھی خاوند کی ذمہ داری ہے؟ فروغ نسیم نے کہا کہ اہلیہ کے اثاثے آمدن سے زائد ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اہلیہ کے اثاثے آمدن سے زیادہ ہیں تو اس کا تعین کس فورم پر ہوگا۔ فروغ نسیم نے کہا کہ سروس آف پاکستان کے تحت یہ جواب خاوند نے دینا ہے۔ ایسا کونسا ریکارڈ ہے جس سے اہلیہ کے اثاثے آمدن سے زیادہ لگتے ہیں۔ 
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ کا مقدمہ پراپرٹیز کی ملیکت سے ہے۔ کسی کے رہنے سہنے کے انداز کا مقدمہ آپ کا نہیں ہے۔ ریفرنس میں منی لانڈرنگ اور فارن ایکسچینج کی منتقلی کی بات کی گئی ہے، جسٹس منیب اختر
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ صدارتی ریفرنس کے الزامات کا جائزہ جوڈیشل کونسل نے لینا ہے۔ ہمارے ملک میں 1990 کے بعد ایسا میکانزم بنایا گیا جس کے تحت کوئی حساب نہیں ہے. الزام یہ ہے کہ لندن کی جائیدادیں کیسے خریدی گئی۔ صدارتی ریفرنس میں تشویش جائیداد خریدنے کے ذرائع ہیں۔ 
اس پر جسٹس یحیٰی آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ اگر تسلیم کر لیں تو پھر تمام ججز سے ٹیکس کا جوڈیشل کونسل پوچھے گی؟ فروغ نسیم نے کہا کہ جوڈیشل کونسل جج کے ٹیکس گوشواروں کا جائزہ لے سکتی ہے۔
 جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ اگر ایف بی آر کہہ دیں کہ اہلیہ نے جائیدادیں اپنے وسائل سے حاصل کی ہے تو پھر صورت حال کیا ہوگی؟ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ آپ کا مقدمہ ٹیکس قانون کے آرٹیکل 116 کے خلاف ورزی کا ہے۔ آپ تو ٹیکس قانون کے ماسٹر ہیں۔ ہمارا مرکزی مقدمہ یہ ہے کہ کن وسائل سے یہ جائیدادیں خریدی گئی ہیں۔ آرٹیکل 116 کے خلاف ورزی ایک چھوٹا سا نقطہ ہے۔ 
جسٹس منصور علی شاہ نے دوبارہ سوال کیا کہ کیا اس بات کا امکان ہے کہ ایف بی آر اہلیہ سے ذرائع پوچھ لے؟  فروغ نسیم نے کہا کہ ایف بی آر پوچھے اور اہلیہ جواب دے دیں تو کیس ختم ہو جائے گا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پھر اس بات پر اصرار کیوں کر رہے ہیں کہ جواب قاضی فائز عیسیٰ ہی دیں۔ اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل جج کے خلاف ڈسپلنری کارروائی کر سکتی ہے۔ کس قانون کے تحت کونسل جج سے اہلیہ کی جائیداد کے بارے میں پوچھ سکتی ہے۔ 
 یہ نہیں ہوسکتا کہ سروس آف پاکستان کے ملازم کے بچے رولز رائس گاڑی چلائیں۔ اگر 1969 کا قانون اتنا برا تھا تو اٹھارویں ترمیم میں پارلیمنٹ ختم کر دیتی۔ 
اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ حکومتی وکیل ٹائم لائین دے دیں کب تک دلائل مکمل کریں گے۔ 
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اس کیس کو نو ماہ گزر چکے ہیں۔ تسلیم کرتے ہیں ایک جج پر سوال اٹھے تو پورے ادارے پر سوال اٹھتے ہیں۔ 
فروغ نسیم نے دلیل دی کہ انڈیا میں چھ لاکھ کی وضاحت نہ کرنے پر جج کو گھر بھیج دیا گیا، اسی مقدمے کی بنیاد پر انڈیا میں عدالتی تاریخ رقم ہوئی۔ انڈیا میں جج کیخلاف فوجداری کارروائی کو الگ رکھا گیا۔ 
جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ انڈیا میں جج کے خلاف کارروائی کے وقت مکمل مواد پیش کیا گیا۔ 
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا جج صاحب ایف بی آر سے اپنی اہلیہ کا ٹیکس ریکارڈ لے سکتے ہیں۔ اگر ایف بی آر راز داری کی وجہ سے جج صاحب کو اہلیہ کا ریکارڈ نہیں دے گا تو جج انضباطی کارروائی کا سامنا کیسے کرے گا۔ اگر ایف بی آر خاوند کو اہلیہ کے گوشوارے یا ٹیکس معلومات دینے سے انکار کر دے تو پھر راستہ کیا ہوگا۔ 
بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ میں اس سوال کا تفصیلی جواب دوں گا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ابھی سوال کا جواب دے دیں۔ فروغ نسیم نے کہا کہ مجھے متعلقہ قوانین کو دیکھنا ہوگا پھر جواب دینے کی پوزیشن میں ہوں گا۔ 
جسٹس عمر عطاء بندیال نے فروغ نسیم کو ہدایت کی اس سوال کو نوٹ کر لیں۔ 
فروغ نسیم نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عدلیہ پر عوام کا اعتماد بڑا مقدس ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے جج پر عوام کا اعتماد بڑا مقدس ہے۔ ہم امید کرتے ہیں ہمارے جج کا کوڈ آف کنڈکٹ بہت اعلیٰ ہے۔ جج کے پاس جوڈیشل اختیار اللہ کی امانت ہے۔ ہمارے معاشرے میں جج کی بڑی عزت و تکریم ہے۔ جج معاشرے میں بڑا بااختیار ہوتا ہے، اسکی بہت عزت ہوتی ہے۔ عوام کا عدالت عظمیٰ کے جج پر اندھا اعتماد ہوتا ہے۔ عوام کا عدلیہ پر اعتماد مجروح نہیں ہونا چاہیے۔ عدلیہ کی آزادی بڑی اہم ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا آپ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ مقدمہ عدلیہ کی آزادی کا ہے؟ فروغ نسیم نے کہا کہ یہ عدلیہ کی آزادی کا مقدمہ بھی ہے۔ 
عدالت کے استفسار پر فروغ نسیم نے عدالت کو بتایا کہ ان کو اپنے دلائل مکمل کرنے میں مزید دو دن لگ سکتے ہیں۔ 
کیس کی مزید سماعت کل، منگل تک ملتوی کر دی گئی۔ 

شیئر: