پاکستاں کی سپریم کورٹ کے جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ اگر کوئی جج ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کے خلاف آرٹیکل 209 کے تحت ریفرنس کا نہیں بنتا تھا۔ یہ تو ادارے کی ساکھ مجروح کرنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم (ججز) سب جانتے ہیں کہ شیشیے کے گھر میں بیٹھے ہیں۔ ہم سب جواب دہ ہیں۔ لیکن اس بات کے بھی پابند ہیں کہ ادارے اور ججوں کو بدنام کرنے سے روکیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ریفرنس کی کارروائی روکنے کے لیے دائر درخواستوں کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ بینچ نے کی۔
مزید پڑھیں
-
صدارتی ریفرنس کے پیچھے ٹرائیکا ہے:جسٹس فائز عیسیٰNode ID: 481681
-
’کیا حکومتی اقدام عدلیہ کی آزادی کے خلاف نہیں؟‘Node ID: 482551
-
ہائی کورٹ نے نیب کو شہباز شریف کی گرفتاری سے روک دیاNode ID: 482746
عدالت نے وفاق کے وکیل فروغ نسیم سے گزشتہ روز کیے گئے سوالوں کے جواب نہ ملنے کے باوجود آج مزید سوالات ان کے سامنے رکھ دیے.
جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ کیا اگر صدارتی ریفرنس میں معلومات درست یا کافی ہوں لیکن ریفرنس میں نقص ہوں تو بھی سپریم جوڈیشل کونسل از خود کاروائی کر سکتی ہے؟ فرض کر لیں یہ ایک کمزور ریفرنس ہے۔ جس کے پس پردہ مقاصد ہیں۔ کیا کونسل ایسے ریفرنس پر کارروائی کرنے کی پابند ہے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ اگر جائیدادیں بیوی بچوں کے نام ہیں تو سوال جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے کیوں کیا جا رہا ہے؟
انہوں نے کہا کہ یہ بھی بتا دیں کہ ایسٹ ریکوری یونٹ نے کتنی عوامی شکایات پر عوامی عہدہ رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کی ہے؟
حکومتی وکیل فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی سوالات کا جوابات دینے سے قبل چند حقائق عدالت کے سامنے رکھوں گا۔ 10 اپریل 2019 کو وحید ڈوگر نے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو شکایت بھیجی۔
آٹھ مئی کو وحید ڈوگر نے لندن پراپرٹیز کے حوالے سے اے آر یو کو خط لکھا۔وحید ڈوگر نے خط میں لندن پراپرٹیز کی قیمت خرید اور مارکیٹ ویلیو کے بارے میں بتایا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ فروغ نسیم صاحب یہ بتائیں گے کہ لندن پراپرٹیز کی معلومات کس طرح سے انٹرنیٹ پر شائع کی گئیں؟ وحید ڈوگر کی شکایت پر انکوائری کی اجازت کس نے دی؟ اے آر یو نے شکایت پر انکوائری کا آغاز کیسے کر دیا؟ فروغ نسیم نے جواب دیا کہ 1988 سے برطانیہ میں ہر پراپرٹی کا ریکارڈ اوپن ہے۔ اے آر یو کو قانون کی سپورٹ حاصل ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ منی ٹریل کی بات کرتے ہیں بظاہر یہ ٹیکس کی ادائیگی کا معاملہ ہے۔ اس مقدمے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر کرپشن کا الزام نہیں لگایا گیا۔ الزام ہے کہ آپ کے بیوی بچوں کے نام لندن کی پراپرٹی ہے جو ظاہر نہیں کی گئی۔
فروغ نسیم نے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے بچوں اور اہلیہ نے بھی لندن کی پراپرٹی ظاہر نہیں کی۔ قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے 2014 میں آمدن 9285 ظاہر کی۔2011 اور 2013 میں بچے تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد کیسے مہنگی پراپرٹی خرید سکتے تھے۔2011 اور 2013 میں بچوں کی عمر بھی زیادہ نہیں تھی۔ بلاشبہ قاضی خاندان امیر ہے لیکن ریکارڈ زرعی زمین پر زرعی ٹیکس ظاہر نہیں کرتا۔
جسٹس مقبول باقر نے پوچھا کہ ایف بی آر نے اس معاملے پر کارروائی کیوں نہیں کی؟ فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ایف بی آر نے خوف کی وجہ سے ٹیکس کے معاملے پر جج کے خلاف کارروائی نہیں کی۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ اگر ایف بی آر حکام کارروائی نہیں کرتے تو کیا صدر مملکت قانونی کارروائی کو بائی پاس کر سکتے ہیں؟ فروغ نسیم نے کہا کہ ایف بی آر حکام کو خوف تھا جج کے خلاف کارروائی کی تو انہیں کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائے گا۔
فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف انکوائری کے لیے صدر کی اجازت درکار نہیں تھی۔ وفاقی حکومت کے رولز آف بزنس اے آر یونٹ کو انکوائری کی اجازت دیتے ہیں۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ لندن کی ایک پراپرٹی 2004 میں خریدی گئی۔ 2011 میں بیٹی کا نام اس جائیداد میں شامل کیا۔

فروغ نسیم نے کہا کہ جوڈیشل کونسل نے ریفرنس دائر ہونے پر معزز جج کو نوٹس جاری نہیں کیا۔ جوڈیشل کونسل نے پہلے اٹارنی جنرل کا موقف سنا اور پھر جسٹس قاضی فائز سے جواب مانگا۔ جسٹس قاضی فائز نے ابتدائی جواب میں پراپرٹی سے انکار نہیں کیا۔ جوڈیشل کونسل نے 12 جولائی 2019 کو جج صاحب کو شوکازنوٹس جاری کیا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے ٹیکس قانون کی پیروی نہیں کی گئی۔ آرٹیکل 209 عدلیہ کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔
جسٹس عطابندیال نے کہا ہے کہ 2009 میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی آمدن تین کروڑ 72 لاکھ تھی۔ بظاہر لگتا ہے بطور وکیل جسٹس قاضی کے پاس کافی پیسہ تھا وہ کامیاب وکیل تھے۔ ہمیں جج کی بددیانتی یا کرپشن دکھائیں ایسا کچھ بتائیں جس سے جرم سامنے آئے۔
سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بیوی بچوں نے ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی کی تو سوال شوہر یعنی جج سے کیوں کیا جا رہا ہے؟ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ انکم ٹیکس قانون کے سیکشن 116 کی بات کی جا رہی ہے اس میں تو بیوی اور چھوٹے بچوں کو پہلے ہی زیر کفالت قرار دے دیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت تو جن کے نام جائیداد ہے ان کو نوٹس جاری کرتے اور جواب نہ آنے پر متعلقہ فورم پر کارروائی شروع کر دیتے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فروغ نسیم کفالت والے معاملے بڑی چالاکی سے نظرانداز کرتے ہوئے آگے نکل جاتے ہیں۔
بیرسٹر فروغ نسیم نے دلائل دیتے کہا کہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ بینک ٹرانزیکشنزکاریکارڈ دکھا دیں۔ میرا ایک لائن کا جواب ہے منی لانڈرنگ سنگین جرم ہے۔
