Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اردوان کی مہم جوئی کا نتیجہ کیا نکلے گا؟

ترکی، روس اور بشار کے مقابلے میں بیشتر معرکے ہار چکا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ترکی کا موغادیشو میں فوجی اڈہ ہے۔ یہ ترک سرحدوں سے بہت دور ہے۔ ترکی کا سب سے بڑا سفارت خانہ بھی صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں ہی ہے۔ لیبیا اور صومالیہ میں قدرے مشترک ایک بات ہے کہ دونوں ممالک جنگوں کی وجہ سے شکست و ریخت کا شکار ہیں۔
چند ماہ قبل ترکی نے سوڈان کے معروف جزیرے سواکن میں قدم جمانے کی کوشش کی تھی۔ ترکی وہاں اپنا فوجی اڈہ قائم کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ اگر عمر البشیر کے اقتدار کے تانے بانے نہ بکھرتے اور سوڈان کے نئے قائدین ترکی کے ساتھ اپنے فوجی معاہدے منسوخ نہ کرتے تو سواکن میں ترکی کا فوجی اڈہ قائم ہوچکا ہوتا۔
سوال یہ ہے کہ خطے کے نقشے پر ترکی کے یہ سرخ نشان آیا اس کے توسیع پسندانہ منصوبے کا حصہ ہیں۔ آیا یہ سوچی سمجھی سیاست کی علامتیں ہیں یا یہ خود پسند شخصیت کا ردعمل ہیں؟
شام میں جنگ کے ابتدائی برسوں کے دوران رجب طیب اردوان افواج کے ذریعے سرحدیں عبور کرنے میں تردد کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ آج ان کی فوجیں شام میں لشکر انداز ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ترکی، روس اور بشار الاسد کی افواج کے مقابلے میں بیشتر معرکے ہار چکا ہے۔
امریکہ کے حوالے سے بھی ترکی کا یہی حال ہے۔ ترک حکومت نے اپنی سرحدوں کو محفوظ کرنے کے لیے شام میں فوجی کارروائی کر کے دونوں ملکوں کی سرحدوں کے درمیان محفوظ علاقہ قائم کرنے کی کوشش کی تھی اب اس علاقے کا دائرہ بھی محدود ہوگیا ہے۔
مذکورہ ناکامیوں کے تناظر میں صدر رجب طیب اردوان دگرگوں معاشی حالات سے افسردہ ترک عوام کو لیبیا میں فوجی فتوحات کی خوش خبریاں دینا چاہ رہے تھے۔ انہوں نے اس حوالے سے  خبروں کا ایک طوفان کھڑا کیا۔ ترک عوام کو فتوحات کی خوش خبریاں سنائیں۔

 ترکی کی فوجی مہم جوئیوں کے نقصانات کو معمولی قرار نہیں دیا جا سکتا (فوٹو: اے ایف پی)

نمایاں ترین خوش خبری یہ تھی کہ ترکی نے لیبیا کے ساتھ تیل معاہدوں پر دستخط کردیے ہیں اور ترکی بحیرہ روم میں ان مقامات پر جنہیں انہوں نے سمندری سرحدوں کے طور پر مرتسم کیا ہے تیل کی تلاش کا عزم ظاہر کیا حالانکہ یونان کو اس پر اعتراضات بھی ہو رہے ہیں۔ اردوان نے تیل کے ذخائر دریافت کرنے کی اطلاعات سنانے میں بھی جلد بازی کا مظاہرہ کیا۔
مذکورہ خوش کن خبریں ترک عوام کا حوصلہ بلند کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں کہ ترک عوام دو برس سے اقتصادی  صدموں سے دوچار ہو رہے ہیں۔
خطے میں ترکی کی فوجی مہم جوئیوں کے نقصانات کومعمولی نہیں قرار دیا جا سکتا- ترکی کی بیشتر فوجی مہم جوئیوں کی فنڈنگ قطر کر رہا ہے جو علاقائی طاقت کے بل پر راج کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے-
ترک صدر خطے میں توسیع پسندی کے حوالے سے ایرانیوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ ایرانی بھی امریکہ کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے بعد یلغار کرنے لگے تھے اور شام، عراق اور یمن میں پھیل گئے تھے۔

یمن میں بھی ترک مداخلت کی خبریں آنے لگی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

ایران کی طرح ترکی بھی مبینہ طور پر لیبیا میں جنگ کے لیے غیرملکی ملیشیاؤں کو استعمال کر رہا ہے۔ یمن میں بھی ترک مداخلت کی خبریں آنے لگی ہیں۔ اس سے قبل ترکی شامی کردوں کے خلاف شامی ملیشیاؤں کو استعمال کر چکا ہے۔
فوجی مہم جوئیوں سے یہ پتا نہیں چلتا رہا ہے کہ رجب طیب اردوان کی پالیسی کیا ہے اور اس پالیسی کا متوقع نتیجہ کیا برآمد ہو سکتا ہے۔
دسمبر 2019 کے دوران ملائشیا نے امت مسلمہ کے احوال و کوائف پر غور و خوض کے نام سے اسلامی سربراہ کانفرنس کی میزبانی کی تھی۔ اس کا دائرہ اردوان، ایران اور انڈونیشیا کے سربراہوں اور امیر قطر تک محدود رہا تھا۔ اردوان نے ان کے سامنے امت کے رہنما کے طور پر پیش کرنے اور اس سربراہ کانفرنس کو اسلامی تعاون تنظیم کے نعم البدل کے طور پر قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔ کانفرنس ناکام رہی۔ ملائشیا نے بات بنانے کی کوشش کی کہ ترکوں کے بیانات ان کے نکتہ نظر کے ترجمان نہیں۔  ملائشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد برطرف کر دیے گئے اور اس مہینے اپنی پارٹی سے بھی بے دخل کر دیے گئے۔
ایسا لگتا ہے کہ اردوان ترکی کو ایران جیسی بڑی علاقائی طاقت بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ غالبا وہ اس نکتہ نظر کے تحت ایران کی جگہ حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ ایرانی امریکی ناکہ بندی کی وجہ سے بہت زیادہ کمزور ہو گئے ہیں-

ترکی وسطی ایشیا میں علاقائی کردار ادا کر رہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

80 ملین کی آبادی والا ملک ترکی وسطی ایشیا میں علاقائی کردار ادا کر رہا ہے- اسے روس اور ایران کے مقابلے میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔
تیل کے زبردست ذخائر کے مالک سعودی عرب اور ایران کے برخلاف ترکی ایسا ملک ہے جس کے پاس آمدنی کے بڑے وسائل نہیں ہیں۔ ترکی بڑی معیشت والا ملک ہے لیکن اس کی معیشت کا انحصار روسی سیاحت، یورپی منڈیوں اور مغربی ممالک میں مقیم ترکوں کی ترسیل زر پر ہے۔
رجب طیب اردوان ترکی کو ہر بحران سے بچانے کے لیے قطر کی مالی اعانت پر گزارہ کر رہے ہیں۔ کورونا کے بحران نے ترک معیشت کا پہیہ معطل کر دیا تھا اور ترک کرنسی لیرا کا دھڑن تختہ ہونے لگا تھا۔ قطر نے 15 ارب ڈالر فراہم کر کے اسے اس بھنور سے نکال لیا۔
ترکی ان دنوں 3 سمندروں بحیرہ احمر،  بحیرہ روم اور بحیرہ اسود میں پھیلا ہوا ہے۔ ترکی کے سیاسی پھیلاؤ  اور فوجی سرگرمیوں کا متوقع نتیجہ انقرہ کے حکمراں کے اثر و نفوذ میں اضافے کی صورت میں نہیں برآمد ہوگا بلکہ یہ انہیں کمزور کردے گا۔ وجہ یہ کہ وہ  طاقتور اتحادیوں کے بغیر وسیع و عریض اور شورش زدہ علاقے میں تن تنہا کھیلنے کی سکت نہیں رکھتے۔ ان کے سامنے شام میں جنگ،  میزائلوں کے بحران اور امریکیوں کے ساتھ عسکری اختلاف جیسے امتحانات کے فیصلے باقی ہیں۔

شیئر: