Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پب جی پر پابندی: ’مجھے بیٹا واپس مل گیا‘

گیمنگ ایپ کے دنیا بھر میں کروڑوں صارفین موجود ہیں (فوٹو پب جی)
پاکستان میں ٹیلی مواصلات سے متعلق ادارے پاکستان ٹیلی کیمونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے گیمنگ ایپ پب جی پر عارضی پابندی لگائی اور ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) کی رجسٹریشن میں توسیع کا اعلان کیا۔ انٹرنیٹ صارفین بالخصوص سوشل میڈیا نے وی پی این معاملے کو تو کچھ زیادہ لفٹ نہیں کرائی البتہ پب جی (پلیئر ان نونز بیٹل گراؤنڈ) کی معطلی پر خاصا ردعمل ظاہر کیا۔
سوشل ویب سائٹس خصوصاً ٹوئٹر پر پی ٹی اے کے اقدام پر تبصرہ کرنے والے صارفین میں سے کچھ نے پرتشدد گیمنگ ایپ کی معطلی کو اچھا کہا تو کچھ نے دیگر ایپلی کیشنز کے ساتھ اسی سلوک کی تجویز دی۔ البتہ کچھ ایسے بھی تھے جو پابندی پر غم و غصہ کا اظہار کرتے رہے۔
گذشتہ روز پی ٹی اے نے دو الگ الگ بیانات میں اطلاع دی تھی کہ وقت کے زیاں اور عادی بنانے کے ساتھ بچوں کی جسمانی و ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کرنے کی عوامی شکایات پر پب جی گیم پر عارضی پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
یہ وضاحت بھی کی گئی تھی کہ پب جی گیم سے منسوب خودکشی کے معاملات سامنے آئے ہیں۔ اس ضمن میں لاہور ہائی کورٹ نے پی ٹی اے کو ہدایت کی ہے کہ معاملہ دیکھیں اور شکایت کنندگان کو سنے کے بعد اس کا فیصلہ کریں۔ ادارے نے نو جولائی کو سماعت کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔

اعلان کے فوراً بعد گیمنگ ایپلی کیشن کے صارفین، اس کے اثرات کی وجہ سے مخالفت کرنے والوں اور دیگر سوشل میڈیا یوزرز نے معاملے پر گفتگو شروع کی تو اسے ٹرینڈز لسٹ کا حصہ بنا ڈالا۔
کچھ صارفین نے پب جی کھیلنے والے بچوں کے والدین کے تاثرات کو ٹویٹ کا موضوع بنایا۔ ایسی ٹویٹس میں ایک تصویر شیئر کی جاتی رہی جس پر دکھائی گئی خاتون کہتی ہیں کہ ’آج مجھے میرا بیٹا واپس مل گیا‘۔

حمزہ دستگیر نے پابندی کو سراہا تو لکھا کہ ’کبھی نہ کرنے سے تاخیر بہتر ہے۔ اب وقت ہے کہ ٹک ٹاک پر بھی پابندی عائد کی جائے، یہ نوجوانوں کو تباہ کر رہی ہے‘۔

ٹک ٹاک پر پابندی کے خواہاں افراد میں سے ایک عاقب رضا نے ٹک ٹاک ویڈیو بناتے ہوئے غلطی سے خود کو گولی مار لینے والے پاکستانی نوجوان کی ایک خبر شیئر کی تو پی ٹی اے کو مینشن کرتے ہوئے لکھا کہ ’ٹک ٹاک جیسی ایپس معاشرے کے لیے کینسر ہیں۔‘

پب جی گیم کے شائقین اور پابندی سے متعلق ان کے تاثرات بتانے والے صارفین نے گفتگو میں حصہ لیا تو میمز کے ذریعے بھی مدعا بیان کیا۔ گڑیا نامی ہینڈل نے تصویر شیئر کی جس پر لکھا تھا کہ ’ارے بھائی آپ تو ہمارے خاندان کے پیچھے ہی پڑ گئے ہیں‘۔

پب جی پر عارضی معطلی کے موثر ہونے کا پہلو بھی سوشل میڈیا ڈسکشن کا حصہ بنا۔ رضوان نامی صارف نے پب جی گیمنگ ایپ کے کھلاڑی اور دوست کا مکالمہ نقل کرتے ہوئے ایک تصویر شیئر کی جس پر لکھا تھا کہ ’وی پی این ہو تو کیا کچھ نہیں ہو سکتا‘۔

ٹوئٹر ہینڈل ابنِ آدم نے پب جی کی عارضی معطلی کے باوجود گیمنگ ایپ کے دستیاب ہونے کی اطلاع دی تو لکھا کہ ’یہ اب بھی کام کر رہی ہے‘۔

2017 کے اوائل میں متعارف کرائی گئی گیمنگ ایپلی کیشن پب جی کو دنیا کے مختلف ملکوں میں کروڑوں صارفین استعمال کرتے ہیں۔ گیم میں اسلحے، لڑائی اور جیتنے کے لیے دیگر پلیئرز کے قتل کرنے جیسے ٹاسک اور پھر ان کے بچوں و نوجوانوں پر اثرات کی وجہ سے ایپلی کیشن کو تنقید کا سامنا رہتا ہے۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: