Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زُوم سے اُکتا گئے ہیں تو ہولوگرام مشین حاضر

کمپنی اگلے سال میز پر رکھنے کے لیے کم قیمت چھوٹی ڈیوائس تیار کرنے پر کام کر رہی ہے (فوٹو: روئٹرز)
اگر آپ کورونا وائرس کی وبا کے دوران کمیونیکیشن کے کسی نئے طریقے کی تلاش میں ہیں تو آپ کے لیے خوش خبری ہے کہ لاس اینجلس کی ایک کمپنی نے فون بوتھ کے سائز کی مشین بنائی ہے جس کے ذریعے آپ اپنے لیونگ روم میں ہولوگرام بیم کرکے کسی کے ساتھ بات کر سکتے ہیں۔
پورٹل آئی این سی نامی کمپنی کی جانب سے بنائی گئی ڈیوائس سے صارفین کسی دوسرے شخص کے قد کے برابر ہولوگرام سے بات کر سکتے ہیں۔
مشین کو ایسی ٹیکنالوجی سے بھی لیس کیا جا سکتا ہے جس کے ذریعے آپ کسی تاریخی شخصیت یا اپنے کسی فوت شدہ عزیز کے ریکارڈڈ ہولوگرام سے بات کر سکتے ہیں۔

 

پورٹل آئی این سی کے نس باؤم کہتے ہیں ’ہمارا کہنا ہے کہ اگر آپ وہاں نہیں تو آپ اپنی تصویر وہاں بیم کر سکتے ہیں۔‘
نس باؤم اس سے قبل ایک ایسی کمپنی میں کام کر چکے ہیں جس نے سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن کا ہولوگرام ان کی ڈیجیٹل لائبریری کے لیے تیار کیا تھا۔
’ ہم فوجی خاندانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے میں کامیاب ہوئے ہیں جو کہ کئی ماہ سے ایک دوسرے سے نہیں مل سکے، اور مختلف علاقوں کے لوگوں یا ان لوگوں کو جو کورونا کی وجہ سے سماجی فاصلہ اپنا رہے ہیں۔‘
مشین کی قیمت 60 ڈالر سے شروع ہوتی ہے اور نس باؤم کو توقع ہے کہ آئندہ تین سے پانچ برسوں کے درمیان اس کی قیمت گر جائے گی۔
کمپنی اگلے سال کے شروع تک میز پر رکھنے کے لیے کم قیمت کی چھوٹی ڈیوائس تیار کرنے پر کام کر رہی ہے۔
ان ڈیوائنسز کو لاس اینجلس کی مصنوعی ذہانت کی کمپنی ’سٹوری فائل‘ کی ٹیکنالوجی سے لیس کرکے ایسے ہولوگرامز تیار کیے جا سکتے ہیں جنہیں محفوظ (آرکائیوز) کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس سے ڈیوائس کی قیمت 85 ہزار ڈالر تک بڑھ جائے گی۔
یہ کمپنیاں عجائب گھروں کو پروموٹ کر رہی ہے جس سے سیاح کسی تاریخی شخصیت کے ہولوگرام سے سوال کر سکتے ہیں۔

ہولوگرام مشین کی قیمت 60 ڈالر سے شروع ہوتی ہے (فوٹو: روئٹرز)

’سٹوری فائل‘ کے چیف ایگزیکٹیو ہیتھر سمتھ کا کہنا ہے کہ ’ لوگ کو محسوس ہوگا جیسے وہ کسی ریکارڈ شدہ ہولوگرام سے گفتگو کر رہے ہیں۔‘
’آپ ان کی موجودگی محسوس کر سکتے ہیں اور ان کی باڈی لینگویج کو دیکھ سکتے ہیں۔‘
’آپ کو احساس ہوگا جیسے آپ نے حقیقت میں کسی شخص سے بات کی حالانکہ وہ وہاں موجود نہیں تھا۔‘

شیئر: