Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا رومانس صرف ساون کی بارش میں ہی ہوسکتا ہے؟

برصغیر میں ساون کا مہینہ سن عیسوی کے اعتبار سے جولائی کے وسط میں شروع ہوتا ہے اور مئی اور جون کی تپش اور گرمی سے راحت جاں کا وسیلہ بنتا ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ بارش کے برسنے سے چلچلاتی لو کا موسم ختم اور پانی کی بوند بوند کو ترسی زمین کے پیاسے لب سیراب ہوتے ہیں۔ کسان دہان کی فصلوں کی کاشت کے لیے اسی موسم کے منتظر ہوتے ہیں  کہ کب مینہہ برسے گا اور وہ روزی روٹی کا سامان کرنے لگ جائیں گے۔
ساون کی جھڑیاں جہاں دھوپ سے جھلسے درختوں، چرند، پرند کو نئی زندگی بخشیں وہیں جذبات بھی تازہ ہوتے ہیں اور ملن کی خواہش انگڑائیاں لینے لگتی ہے۔ 
لیکن کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ساون بھادوں تو حبس اور چپ چپ کا موسم ہے۔ اگر اس موسم میں بارش ہوتی ہے تو جھڑی کے بعد یا اس کے دوران بھی ایسی حبس ہوتی ہے کہ پسینہ جسم کاٹتا ہے، اس میں رومانس کہاں سے گھس آیا ہے اور شاعروں کو اس موسم میں رومانویت کہاں سے نظر آتی ہے؟ 
کچھ دوسرے سوال اٹھاتے ہیں کہ بارش تو دوسرے موسموں میں بھی ہوتی ہے تو پھر صرف ساون کی بارش کو ہی رومانویت سے منسوب کیوں کیا جاتا ہے؟
روایات کے مطابق پرانے زمانوں میں ساون صرف موسم ہی نہیں بلکہ ایک رسم کے طور پر منایا جاتا تھا ایسے ہی جیسے بیساکھی کے میلوں کی رسم۔ لڑکیاں جھولے جھولتی اور بڑی بوڑھیاں گھروں میں خصوصی پکوانوں کا اہتمام کرتی تھیں۔
شاعر اس موسم پر خصوصی گیت لکھتے جو بڑے بڑے گائیک گاتے اور مقبولیت کی انتہاووں کو چھوتے۔ اسی موسم میں اکبر علی خان اور تان سین جیسے کلاسیکل گلوکاروں نے راگ ملہار، راگ میگھ یا میا کے راگ اس انداز سے گائے کہ امر ہو گئے۔  
جوش ملیح آبادی، ناصر کاظمی اور چراغ حسن حسرت جیسے شاعروں کی ساون پر شاعری آج بھی ادب کے دلدادہ لوگوں کی زبانوں پر ہے۔


شاعرہ محمودہ غازیہ سمجھتی ہیں کہ ساون کے بارے میں شاعروں کی رومانویت پر مبنی شاعری حقیقت سے قریب نہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)

پاکستانی اور انڈین فلموں میں تو ساون کو رومانس، ہجر اور ملن کی خواہش کی علامت بنا دیا گیا ہے۔ ساون آئےساون جائے، تجھ کو پکاریں گیت ہمارے، رم جھم گرے ساون، سلگ سلگ جائے من، یہ رات بھیگی بھیگی یہ مست نظارے، تیری دوٹکیاں دی نوکری میں میرالاکھوں کا ساون جائے، ساون کی بھیگی راتوں میں اور جب پھول کھلے برساتوں میں، جب چھیڑیں سکھیاں باتوں میں، مینوں یاداں تیریاں آؤندیاں نے جیسے کانوں میں رس گھولتے گیت آج بھی شائقین کو مسحور کر دیتے ہیں۔
دور حاضر کے شاعر اختر عثمان رومانس کو ساون سے منسلک کرنے کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ موسم ہر جاندار کے ملن کا موسم ہے۔
'ساون ملن کا موسم ہے خواہ وہ انسان ہوں، حشرات الارض ہوں، چرند، پرند یا پھر درندے ہی کیوں نہ ہوں یہ سب ملتے ہیں۔ اسی لیے شاعر اس موسم کو رومانوی موسم سمجھتے ہیں۔ اس موسم میں درختوں کی شاخوں پر نئی ٹہنیاں اگتی ہیں۔ زمین کا سبزہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔‘
’جن کو وصل نصیب نہیں ان کے اندر حزن در آتی ہے۔ پھر یہ ملہار کا بھی موسم ہے۔ ملہار بارش کا موسم ہے جو بارش کا گیت ہے۔ خسرو کے زمانے سے یہ گیت گائے جا رہے ہیں کہ 'اماں میرے بابا کو بھیجو ری کہ ساون آیا۔'
اختر عثمان کے مطابق ’ساون میں بہار سے زیادہ رومانس ہے کیونکہ آسمان برستا ہے۔ ندیاں نالے بہہ نکلتے ہیں اور بارش کی وجہ سے زمین سے خوشبو آتی ہے۔‘
شاعرہ سبین یونس کا کہنا ہے کہ 'ساون اور برسات کے موسم میں ملن کی چاہت بڑھ جاتی ہے اسی وجہ سے زمانہ قدیم سے ساون گیتوں اور شاعری کا حصہ ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ساون ہجر اور انتظار کا موسم ہے اسی وجہ سے تیری دو ٹکیاں دی نوکری میں میرا لاکھوں کا ساون جائے رے جیسے گیت لکھے گئے ہیں۔

شاعرہ سبین یوسف کا کہنا ہے کہ ’ساون اور برسات کے موسم میں ملن کی چاہت بڑھ جاتی ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

انھوں نے کہا کہ ’ساون میں رومانس کے اپنے انداز ہیں۔ بچپن میں جب ساون آتا ہے تو بچے بھاگ کر گھر کے صحن میں نہانے لگ جاتے ہیں۔ ذرا بڑے ہوتے ہیں تو ساون میں جنون کا اضافہ ہوتا ہے اور اگر ساون میں کوئی اپنا پاس ہو تو یہ موسم سہانا لگتا ہے لیکن اگر ہجر ہو اور طویل اور کوئی اپنا پاس نہ ہو تو یہ بارش آنسو میں بدل جاتی ہے۔‘
لیکن شاعرہ محمودہ غازیہ سمجھتی ہیں کہ ساون کے بارے میں شاعروں کی رومانویت پر مبنی شاعری حقیقت سے قریب نہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’نئے زمانے کا شاعر پریکٹیکل ہو چکا ہے اور تقسیم سے قبل ساون سے متعلق بنائی گئی کہانیاں اب ہماری ثقافت کا حصہ نہیں رہیں۔‘
’بارش تو سردیوں اور دسمبر کی بھی اتنی ہی خوبصورت ہوتی ہے جتنی ساون کی۔ اگر انسان کا من رومانوی ہو تو وہ کسی بھی موسم کو رومانس کا موسم بنا لیتا ہے کیوں کہ اصل موسم اندر کا ہوتا ہے۔‘
’اگر دو چاہنے والے جیٹھ، ہاڑ یا پوہ (گرمی اور سردی کے مہینوں کے پنجابی نام) میں ساتھ بیٹھے ہوں اور ان کے اندر کا موسم خوش گوار ہو، انہیں ایک دوسرے پر پیار آ رہا ہو تو ان کے لیے ساون کا انتظار بے معنی ہے۔
تاہم اس کے باوجود محمودہ غازیہ نے خود بھی ساون پر یہ نظم لکھی ہے۔
بارش برسے دھارو دھار
گری چٹانوں کے پہلو سے
جھرنے کی تلوار
جس کے ساتھ میں آئی بہار
بڑے غلام علی سے کہیے
گائے میگھ ملہار

شیئر: