Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

درب زبیدہ، عراق سے مکہ تک تاریخی حج شاہراہ

حاجیوں کے قافلے مختلف راستوں سے مکہ مکرمہ آرہے ہیں۔(فوٹو مجلہ سواح)
اسلامی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جب سے حج مسلمانوں پر فرض کیا گیا ہے تب سے حاجیوں کے قافلے مختلف راستوں سے گزرتے ہوئے مکہ مکرمہ آ رہے ہیں۔
ماضی قدیم میں حج شاہراہیں تعمیر کی گئیں ان کے اطراف کاروباری مراکز قائم ہوئے۔ حج شاہراہیں ایک عرصے تک مختلف اقوام و ممالک کی ثقافتوں اور تجربوں کے تبادلےاور منتقلی کا ذریعہ بنی رہیں۔
تاریخ کی کتابوں میں 7 بڑی حج شاہراہوں کا ذکر ملتا ہے۔ یہ اسلامی ریاست کے مختلف حصوں سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ تک بنائی گئی تھیں۔

درب زبیدہ (درب الحاج العراقی)

حج شاہراہوں میں سب سے زیادہ مشہور الکوفہ، مکہ مکرمہ شاہراہ ہے۔ یہ اسلامی تاریخ میں سب سے اہم حج و تجارتی شاہراہ کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے۔ اسے درب زبیدہ کے نام سے شہرت ملی۔ اسے عراقی حج شاہراہ بھی کہا جاتا ہے۔ عربی میں اس کا نام درب الحاج العراقی ہے۔ عراقی حج شاہراہ ’درب الحاج العراقی‘ اور’درب زبیدہ‘ کے نام سے مشہور ہے۔
اسلام کی آمد سے قبل ”الہیرہ، مکہ مکرمہ“ سڑک کے نام سے جانی جاتی تھی۔ الہیرہ نامی مقام موجودہ الکوفہ سے تین میل دور تھا۔ اسلام کی آمد کے بعد کوفہ، ھیرہ کی جگہ آباد ہوگیا۔ کوفہ سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا راستہ بڑا اہم ہو گیا۔
’درب زبیدہ‘ جزیرہ عرب کی مشہور ترین شاہراہ اور اسلام کی آمد سے پہلے سے ہے۔ یہ سعودی عرب میں 1400 کلو میٹر سے کہیں زیادہ طویل علاقے میں پھیلی ہوئی ہے۔ سعودی عرب کے پانچ علاقوں (حدود شمالیہ، حائل، القصیم، المدینہ المنورہ اور مکہ مکرمہ سے گزرتی ہے۔
یہ سلطنت عثمانیہ کے قیام تک اسلامی دنیا میں مشہور ترین حج شاہراہ مانی جاتی رہی ہے۔
عالم اسلام میں رونما ہونے والی ثقافتی اور تمدنی تبدیلیوں کی شاہد ہے۔
’درب زبیدہ‘ پر حج ، عمرہ، زیارت اور تجارت کے لیے سفر کرنے والوں کی سہولت کی خاطر بہت سارے نتظامات کیے گئے تھے۔ ان میں سے متعدد سفری اداروں کے نقوش آج بھی موجود ہیں۔

عالم اسلام میں رونما ہونے والی ثقافتی اور تمدنی تبدیلیوں کی عینی شاہد ہے۔ (فوٹو: مجلہ سواح)

سعودی محکمہ سیاحت وقومی ورثہ ’درب زبیدہ‘ کو یونسکو میں سعودی عرب کے اہم ترین تاریخی مقام کی حیثیت سے عالمی روثے کی فہرست میں شامل کرانے کی کوشش کررہا ہے۔
’درب زبیدہ‘عباسی خلیفہ ،ہارون الرشید کی ملکہ  زبیدہ بنت جعفر سے منسوب ہے جنہوں نے کوفہ سے مکہ تک جانے والی اس شاہراہ پر فلاحی خدمات کا انتظام کیا تھا اور بہت  سے مسافر خانے تعمیر کرائے تھے۔
پہلے عباسی خلیفہ نے 134ھ میں شاہراہ کی علامتیں بنوائیں۔ 14ویں صدی ہجری کے نصف ثانی میں سفری وسائل کی تبدیلی کے باعث اس سڑک کی اہمیت ختم ہوگئی۔
عباسی ریاست کے قیام کے 2 برس بعد اس شاہراہ پر کام شروع ہوا تھا۔ ابو العباس السفاح نے میلوں کی علامتیں لگوائیں۔مینارے تعمیر کرائے،حاجیوں کی آسانی کےلیے آگ روشن کی جاتی تھی۔
مہدی نے 161ھ میں شاہراہ پر بہت کام کرایا۔ مہدی کے لیے عراق سے مکہ مکرمہ،برف پہنچایا جاتا تھا۔ مامون نے اس شاہراہ پر شجر کاری کرائی۔
المقتدر العباسی اور عضدالدولہ نے بھی اس شاہراہ کی خدمت کی۔ بویہی اور سلجوقی بھی حج شاہراہ کے خدام شمار کئے جاتے ہیں۔ عباسی خلفا نے حج شاہراہ کے منتظمین مقرر کئے۔ کوفہ مکہ مکرمہ حج شاہراہ 1300کلومیٹر لمبی تھی۔ اس شاہراہ کی دسیوں منزلیں تھیں ۔اِن میں القاع،زبالہ،الشقوق، الربزہ اور بستان بن عمر قابل ذکر ہیں۔

 اسلامی تاریخ میں سب سے اہم حج و تجارتی شاہراہ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ (فوٹو مجلہ سواح)

عباسی خلیفہ بغداد سے مکہ مکرمہ کےلیے حج قافلے بھیجا کرتے تھے۔ انہوں نے عراقی محمل (خانہ کعبہ کے لیے تحائف لانے والے اونٹ کو محمل کہا جاتا تھا) کا رواج قائم کیا۔ عباسی خلافت کے پہلے دور میں عراقی محمل سے زیادہ شاندار محمل کہیں کا نہ ہوتا تھا۔ اونٹ کو ریشم سے سجایا جاتا تھا۔ سونے اور موتی سے آراستہ کیا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ کی سجاوٹ پر ڈھائی لاکھ دینار خرچ ہوتے تھے۔
شامی حج شاہراہ کے قیام نے ’درب زبیدہ‘ کی قدر ومنزلت کم کر دی تھی۔
’درب زبیدہ‘ اسلام سے قبل تجارتی شاہراہ ہواکرتی تھی۔ اسلام کی آمد پر خلافت راشدہ اور خلافت امویہ میں اس کی اہمیت بڑھنا شروع ہوئی۔ عباسی خلافت کے عہد اول میں ' نقطہ عروج کو پہنچ گئی تھی۔ عباسی خلافت کے زمانے میں اس پر مسافر خانے اور آرام گھر کثیر تعداد میں بنائے گئے۔ ’درب زبیدہ‘ پر سٹیشن قائم کئے گئے، کنویں ،تالاب،ڈیمز،محل،گھر ،حویلیاں اور طرح طرح کی سہولتیں مہیا کی گئیں۔
حج قافلوں کی حفاظت کے لیے عراق سے مکہ تک قلعے تعمیر کیے گئے، چھاونیاں بنائی گئیں ۔’درب زبیدہ‘ کا نقشہ منفرد سائنٹیفک فن تعمیر کا شاہکار تھا۔
جہاں جہاں شاہراہ کے راستے میں ریتیلی زمین پڑتی تھی وہاں اس کی استرکاری میں پتھر استعمال کئے گئے۔ شاہراہ پر علامتیں نصب کی گئیں۔ مسافروں کی رہنمائی کے لیے الاؤ جلائے جاتے تھے۔

 ’درب زبیدہ‘ کو یونسکو میں عالمی روثے کی فہرست میں شامل کرانے کی کوشش ہے۔ (مجلہ روج)

’درب زبیدہ‘ کا ذکر مسلم سیاحوں اور جغرافیہ نویسوں نے اپنی کتابوں میں کیا ہے۔
فن لینڈ کے سیاح جارج نے اس کا تذکرہ کیا ہے۔ لیڈی آن بلنت نے اپنی تصنیف ’نجد کاسفر‘میں اس پر روشنی ڈالی ہے۔
عراق اور شام کے کئی علاقوں کے عازمین حج ’درب زبیدہ‘ سے مقدس مقامات کا سفر کیاکرتے تھے۔اسلامی عہد میں بھی تجارتی قافلے اس شاہراہ کے راستے تجارتی سامان لاتےلے جاتے رہے۔ ایسا سامان لاتے لے جاتے جو حج موسم میں زیادہ طلب کیا جاتا تھا۔
’درب زبیدہ‘ کے کھنڈر آج بھی اسلامی تاریخ میں اس شاہراہ کی عظیم ثقافتی اور تمدنی حیثیت کی گواہی دے رہے ہیں۔

’درب زبیدہ‘ اور سعودی عرب

’درب زبیدہ‘ سعودی عرب کی معروف کمشنری رفحا میں شمال سے جنوب تک چلی گئی ہے۔ ’درب زبیدہ‘ کے اطراف تاریخی کنوئیں ، تالاب اور مسافر خانے پھیلے ہوئے ہیں۔ الطفیری تالاب، العمیاء تالاب اور القاع تالاب ،رفحاء کے شمال میں واقع ہیں۔
سعودی عرب کے معروف صوبے الحدود الشمالیہ کے مشہور مؤرخ مطر بن عابد السبیعی بتاتے ہیں کہ عراق سے مکہ المکرمہ تک کی حج شاہراہ درب زبیدہ کے نام سے جانی جاتی ہے۔زبیدہ عباسی خلیفہ جعفر بن ابی المنصور کی صاحبزادی اور عباسی خلیفہ ہارون الرشید کی ملکہ تھیں۔زبیدہ نے اس شاہرا ہ پر بہت سارے فلاحی منصوبے قائم کئے تھے اور اصلاحات کرائی تھیں۔ اس وجہ سے شاہراہ کی نسبت ان سے کردی گئی۔

مسلم سیاحوں اور جغرافیہ نویسوں نے اپنی کتابوں میں اس کا ذکر کیا ہے۔( مجلہ روج)

’درب زبیدہ‘ کا احیا

سعودی محکمہ سیاحت و قومی ورثہ ’درب زبیدہ‘ کے احیا کے لیے شاہراہ پر قائم مسافر خانوں اور تمام تاریخی مقامات کی اصلاح و مرمت کرا رہا ہے۔
’درب زبیدہ‘ پر رفحا میں اہم مقامات کی مرمت کردی گئی ہے۔’درب زبیدہ‘ غیر معمولی عالمی حیثیت کی مالک شاہراہ ہے۔
’درب زبیدہ‘ مختلف ملکوں کے درمیان کثیر جہتی مکالمےاور ثقافتی تاثیر و تاثر کے تبادلے کا ذریعہ بنی۔اس شاہراہ کے راہگیر وں میں مختلف نسلوں ،قومیتوں اورعلاقوں کے حاجی ہوتے تھے،یہ دینی ،ثقافتی اورعلمی معلومات کا تبادلہ کیا کرتے تھے۔
اس کی کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ یہ اسلام سے ماقبل سے لیکر 13ویں صدی عیسوی اور ساتویں صدی ھجری میں خلافت عباسیہ کے اختتام تک زمان و مکان کے تانے بانے جوڑے رہی۔
ابن خردازبہ،ابن رستہ، الیعقوبی ،المقدسی ،الجدانی ،الحربی،ابن جفیر اور ابن بطوطہ جیسے مسلم تاریخ نویسوں اورممتازمغربی سیاحوں نے 19ویں اور 20 ویں صدی عیسوی میں’درب زبیدہ‘ سے سفر کیااور اس سے متعلق اپنے مشاہدات قلمبند کیے۔
تاریخی حوالہ جات بتاتے ہیں کہ ’درب زبیدہ‘ کا بڑا ہدف خلافت عباسیہ کے دار الخلافہ بغداد سے لیکر مکہ مکرمہ تک حج زائرین کو سہولت پہنچانا تھا۔ اس کا مقصد 1400کلو میڑ سے طویل علاقے میں تجارتی لین دین ،رسم ورواج،عادات و اطوار اور ثقافتی اقدار کو مالا مال کرنا تھا۔

’درب زبیدہ‘ پر رفحا میں اہم مقامات کی مرمت کردی گئی ہے۔(فوٹومجلہ روج)

’درب زبیدہ‘ پر حاجیوں کی رہنمائی کے لیے راستے کی علامتیں لگائی گئیں تھیں۔شاہراہ پر پانی کے انتظامات کے لئے تالاب کا جال نہایت سوچ سمجھ کر بچھایا گیا۔تالابوں کےلیے جگہ،اور فاصلے کا انتخاب،زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر کیا گیا۔حاجیوں کی ضرورت اور سہولت پیش نظر رکھی گئی۔’درب زبیدہ‘ کے تالابوں کی چین پہاڑوں ،اونچے مقامات ،نشیبی علاقوں اور نامانوس جگہوں سے گزرتی ہے۔
پروفیسر سعد الراشد نے جو ماہر آثار قدیمہ ہیں’درب زبیدہ‘ کا مفصل تعارف کرایا ہے۔
ڈاکٹر سعد الراشد نے 1968میں ’درب زبیدہ‘ پر فیلڈ اسٹڈیز کا آغاز کیاتھا ،یہ در اصل ان کی پی ایچ ڈی کا موضوع تھا۔
ڈاکٹر سعد الراشد کے تحقیقی مقالے کے بعد محکمہ آثار قدیمہ اور سعودی عجائب گھروں کی توجہ اس کی طرف مبذول ہوئی۔
ڈاکٹر سعد الراشد کاتحقیقی مطالعہ ہی قدیم مشہور اسلامی شہر (الربذہ) کی تلاش،کھدائی اورتحقیقی مطالعہ کا محرک بنا کہ یہ شہر بھی ’درب زبیدہ‘ پر واقع ہے۔ ڈاکٹر سعد الراشد کاتحقیقی مطالعہ نو ابواب پر مشتمل ہے۔
انہوں نے ابتدائی اسلامی عہد میں حج شاہراہوں ،عباسی دور میں ''درب زبیدہ''کی تاریخ اور اس حوالے سے خلفا،امرا ، وزرا اور عمائدین کی خدمات اور صدی در صدی شاہراہ کی تعمیر پر روشنی ڈالی ہے۔
الراشد نے پوری ایک فصل زبیدہ بنت جعفر کے لئے خاص کی ہے جس میں شاہراہ کی تعمیر کے سلسلہ میں ان کی کاوشوں کا جائزہ پیش کیا ہے۔

پروفیسر سعد الراشد نے ’درب زبیدہ‘ کا مفصل تعارف کرایا ہے۔(فوٹو مجلہ روج)

تحقیقی مطالعہ دوسو تصاویر، وضاحتی خاکوں والے جغرافیا ئی نقشوں پر مشتمل ہے۔نقشوں کے ذریعہ دکھایا گیا ہے کہ ’درب زبیدہ‘ کہاں کہاں سے کس طرح گزری ہے۔اس سے اور کتنے راستے پھوتے ہیں۔اس کی منزلوں ،اور اس پر قائم کیے جانے والے یادگار مقامات کا بھی تذکرہ کیا ہے۔
الراشد کے مطالعہ کا ماحصل بتاتا ہے کہ :
’درب زبیدہ‘ پر تالابوں اور کنوؤں کا جال بچھایا گیا تھا۔ ان میں سے بعض ریت کے تودوں تلے دب گئے اور کئی سیلاب کے ساتھ ختم ہو گئے۔ کئی آج تک موجود ہیں۔
ڈاکٹر الراشد کہتے اگر آج بھی ’درب زبیدہ‘ پر موجود تقریبا 100 تالابوں ، کنوؤں اور ڈیمز کی اصلاح ومرمت کا منصوبہ نافذ کر دیا جائے تو اس سے بھولی بسری دنیا آباد ہوجائے گی۔اس کی بدولت ’درب زبیدہ‘ کے کنارے اور آس پاس آباد صحرا نشینوں کی زندگی تبدیل ہوگی بلکہ پورا ماحول بدل جائے گا۔ پانی کی فراوانی سے سبزہ زار ابھریں گے، پرندوں اور جانوروں کی دنیا بحال ہوگی۔
’درب زبیدہ‘ کی بحالی سے عہد اول کے مسلمانوں کا لازوال کارنامہ زندہ ہوگا۔ دنیا کو پتہ چلے گا کہ مسلم خلفا ، امرا اور سلاطین نے عمرہ و حج اور مسجد نبوی زائرین کے لیے کیسی شاندار اور متنوع سہولتوں سے آراستہ شاہراہ بنوائی تھی۔
اس شاہراہ پر واقع شہروں الربذہ، زبالہ اور فید کے تحقیقی مطالعے سے’درب زبیدہ‘ کے اطراف بسنے والی بستیوں کی بابت چشم کشا معلومات حاصل ہوں گی۔

شیئر: