Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹائیفائیڈ کی ادویات بے اثر کیوں؟

ڈاکٹر فیصل کے مطابق ٹائیفائیڈ ایک بیکٹیریل انفیکشن ہے جو انتڑیوں میں پیدا ہوتا ہے (فوٹو: روئٹرز)
راشد علی کی عمر 26 سال ہے اور وہ پچھلے ایک ہفتے سے شدید بیمار ہیں۔ ڈاکٹروں نے ان کی بیماری کی تشخیص ٹائیفائیڈ کی ہے اور وہ اس وقت پاکستان کے شہر لاہور کے سروسز ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ راشد کا تعلق لاہور کے علاقہ کاہنہ سے ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب اور خاص طور پر صوبائی دارالحکومت میں آج کل ٹائیفائیڈ کے مریضوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ لاہور کے تین بڑے سرکاری ہسپتالوں میں اوسطا روزانہ 15 کے لگ بھگ ایسے مریض آ رہے ہیں جو کہ ٹائیفائیڈ کا شکار ہیں۔
سروسز ہسپتال کے شعبہ میڈیسن کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عمران کہا کہنا ہے کہ ’عام طور پر ٹائیفائیڈ کے ایک سے دو مریض اس ہسپتال میں اوسطا آتے تھے چونکہ لاہور ایک بہت بڑا شہر ہے اور اس کے ارد گرد کے علاقوں کے لوگ بھی ادھر کا رخ کرتے ہیں لیکن اب یہ تعداد بڑھی ہے اور روزانہ پانچ سے چھ مریض اوسطاً آ رہے ہیں جو کہ ایک بڑی تعداد ہے۔‘
ڈاکٹر عمران سمجھتے ہیں کہ مریضوں کی تعداد سے بھی زیادہ پریشان کن بات ٹائیفائیڈ کی ادویات کا مریضوں پر غیر موثر ہونا ہے۔ ’اگر ابتدا سے اس بات کو دیکھیں تو ٹائیفائیڈ بنیادی طور پر ایک بیکٹیریل انفیکشن ہے۔ اور صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اب اس بات پر تشویش پائی جاتی ہے کہ اینٹی بیکٹیریل ادویات بیکٹیریا پر اب اثر کم کرتی جا رہی ہیں اور گزرنے والے وقت کے ساتھ بیکٹیریا کی مدافعت بڑھتی جا رہی ہے۔‘
پروفیسر ڈاکٹر عمران کا مزید کہنا تھا کہ ’بیکٹیریا کی ان گنت اقسام کے خلاف تو پہلے ہی ادویات اثر کھو رہی تھیں اب ان میں ٹائیفائیڈ بھی شامل ہو گیا ہے، اب اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ لوگ احتیاط کریں اور صفائی کا خاص خیال کریں۔‘

ادویات بے اثر کیوں ہو رہی ہیں؟

ڈاکٹر فیصل امین جو لاہور کے کئی نجی ہسپتالوں میں جنرل فزیشن کے طور پر کام کر رہے ہیں انہوں نے اردو نیوز کو بتایا ’یہ بات درست ہے کہ ٹائیفائیڈ پر ادویات اب بہت کم اثر کر رہی ہیں، میں نے خود اس پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا ہے اپنے تجربے کی روشنی میں۔ اس وقت جس صورت حال کا ہمیں سامنا ہے اسے طب کی زبان میں ایکسٹینسو ڈرگ ریزیسٹنٹ بیکٹیریا کہتے ہیں۔ مطلب  شدید مزاحمت جو ادویات کے استعمال کی وجہ سے کوئی جاندار حاصل کر لے اور اپنے اندر ارتقائی تبدیلیاں پیدا کر لے اور اس پر ان ادوایات کا اثر ہونا کم ہو جائے یا بعض صورتوں میں بالکل ہی ختم ہو جائے۔‘

ڈاکٹر عمران کے مطابق مریضوں کی تعداد سے بھی زیادہ پریشان کن بات ٹائیفائیڈ کی ادویات کا مریضوں پر غیر موثر ہونا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے مزید کہا کہ ’آج کل ٹائیفائیڈ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے جو ادویات ہم دس بارہ برس قبل مریضوں کو دیتے تھے وہ اب بالکل بھی اثر نہیں کر رہیں حتیٰ کہ سنہ 2017 میں آنے والی کچھ ادویات بھی اپنا اثر کھو چکی ہیں۔ اب تو سخت ترین خوراک انجیکشن کےذریعے دینے کا عمل کیا جاتا ہے۔‘
ڈاکٹر فیصل نے اس بات کی بھی تائید کی کہ لاہور کے نجی ہسپتالوں میں بھی ٹائیفائیڈ کے مریضوں میں اضافہ ہوا ہے۔
سیالکوٹ میڈیکل کالج کے شعبہ ادویات کے سربراہ ڈاکٹر سلمان شیروانی نے اردو نیوز کو بتایا کہ تین وجوہات ہیں جس کی وجہ سے بیکٹیریا کے خلاف ادویات بے اثر ہو رہی ہیں ’ایک ہے اینٹی مائیکربیل ادویات کا غیر ضروری استعمال کہ مریض کو ابھی اینٹی بیکٹیریا دوائی کی ضرورت نہیں، ان کی اپنی قوت مدافعت بھی اتنی ہے کہ دوائی کے بغیر بھی وہ ٹھیک ہو سکتا ہے دوسرا یہ کہ غیر ثابت شدہ استعمال، اس کو آپ ایسے دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں ڈاکٹروں کی روایت ہے کہ علامات پر دوائی تجویز کر دی جاتی ہے حالانکہ انٹی بیکٹیریل دوائی ایک تفصیلی کلچر سینسٹیوٹی ٹیسٹ کے بعد حملہ آور  بیکٹیریا کی قسم  کی شناخت کے بعد تجویز کی جانی چاہیے.
ان کا کہنا تھا کہ ’آپ ایسی دوا دے رہے ہیں جو اس قسم پر بہت کم اثر رکھتی ہے تو بالآخر بیکٹیریا میں مزاحمت پیدا ہوگی تیسری اور آخری وجہ ہے اصل مقدار سے کم دوا تجویز کرنا یا مریض کا پوری دوائی نہ کھانا۔ مثلا کسی بھی بیکٹیریا کو کم از کم تین دن دوائی کا سامنا کرنا چاہیے، بیماری کی شدت کے حوالے سے یہ دورانیہ پانچ، سات یا پھر ٹائیفائیڈ کے کیس میں 14 روز تک مسلسل دوائی دی جانی چاہیے لیکن اگر علامات ختم ہونے کی وجہ سے مریض دوائی چھوڑ دے تو یہ بھی ایک بڑا سبب بنتا ہے کہ بیکٹیریا میں پہلے سے زیادہ مزاحمت پیدا ہو جاتی ہے۔ ٹائیفائیڈ کے معاملے میں یہ تینوں وجوہات ہی سامنے آئی ہیں۔‘

لاہور کے ہسپتالوں میں روزانہ 15 کے لگ بھگ ٹائیفائیڈ کے مریض آ رہے ہیں (فوٹو: روئٹرز)

ٹائیفائیڈ اصل میں ہے کیا؟

ڈاکٹر فیصل کے مطابق ٹائیفائیڈ ایک بیکٹیریل انفیکشن ہے جو انتڑیوں میں پیدا ہوتا ہے۔ ’چونکہ یہ جراثیم سب سے پہلے ایک خاتون باورچی سے پھیلا تھا جس کا نام ٹائیفائیڈ میری تھا اس نے جن جن افراد کو اپنے ہاتھوں سے کھانا بنا کر کھلایا وہ اس بیماری کا شکار ہوئے تو اس مناسبت سے اس بیماری کو بھی ٹائیفائیڈ کا نام دے دیا گیا۔‘
ڈاکٹر سلمان شیروانی نے بتایا کہ ’اس انفیکشن کو اورو فیکل انفیکشن کہا جاتا ہے جو پاخانے اور منہ سے لگتا ہے۔ یعنی جس مریض کو بھی ٹائیفائیڈ ہوگا اگر اس نے اچھی طرح ہاتھ نہیں دھوئے تو لامحالہ احتمال ہے کہ یہ وائرس اس سے دوسروں میں منتقل ہوگا اس کا تولیہ اور واش روم کی دیگر اشیا سے یہ بیکٹیریا منتقل ہوتا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہ بیکٹیریا جسم میں دو جگہ پایا جاتا ہے ایک تو جگر کے باہر یعنی جب انفیکشن پیدا ہو جا تا ہے جبکہ اسی وقت میں جگر کے اندر بھی اس کی غیر فعال قسم موجود ہوتی ہے۔ یعنی اس بات کے امکانات بھی بہت زیادہ ہیں کہ آپ میں ٹائیفائیڈ کے جراثیم موجود ہوں لیکن غیر فعال ہوں۔ حالیہ ٹائیفائیڈ کے کیسز میں ایک وجہ یہ بھی سامنے آئی ہے کہ ڈاکٹروں نے غیر فعال بیکٹیریا کا سدباب نہیں کیا جس وجہ سے مزاحمت میں اضافہ ہوا۔‘
باخبر رہیں، اردو نیوز کو ٹوئٹر پر فالو کریں

شیئر: