Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران پر پابندی ختم ہونے سے ’علاقائی امن کو خطرہ‘

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جدید ایرانی ہتھیار مسلح گروپس کے ہاتھوں لگ سکتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اتوار کو اقوام متحدہ کی طرف سے ایران کو روایتی ہتھیاروں کی فروخت پر عائد پابندی کی مدت ختم ہونے ہونے سے علاقائی اور بین الاقوامی استحکام کے لیے خطرہ پیدا ہوا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق ایران کو اسلحے کی فروخت پر پابندی اقوام متحدہ کی قرار داد جس میں 2015 کے تہران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کی منظوری دی گئی تھی کی شرائط کے تحت ختم ہوگئی۔
ایران اب روس، چین اور کہیں سے بھی ہتھیار خرید سکتا ہے۔ تہران نے ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی کی مدت کے خاتمے کو سفارتی کامیابی قرار دیا ہے۔
تاہم امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے اتوار کو کہا ہے کہ اب بھی ایران کو اسلحے کی خرید و فروخت اقوام متحدہ کے قراردادوں کی خلاف ورزی ہوگی اور اس کے نتیجے میں پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
مائیک پومپیو نے مزید کہا کہ امریکی حکام کسی بھی فرد اور ادارے پر پابندی لگا سکیں گے جو ایران کو یا ایران سے روایتی ہتھیاروں کی خرید و فروخت کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہر وہ قوم جو مشرق وسطیٰ میں امن کی خواہاں ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حمایت کرتی ہے، ہتھیاروں کی خریدوفروخت سے دور رہیں۔

گذشتہ دس برس سے ایران پر ہتھیاروں کی خریدوفروخت کی پابندی عائد تھی (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ 10برسوں سے مختلف ممالک اقوام متحدہ کے متعدد قراردادوں کے تحت ایران کو اسلحے کی خریدوفروخت سے اجتناب برتے رہے ہیں۔ جو بھی ملک اس چیز کو چیلنج کرے گا تو وہ واضح طور پر امن و سلامتی کے بجائے تنازعے اور تناؤ کو فروغ دینے کا انتخاب کرے گا۔
ایرانی نژاد امریکی ہاورڈ سکالر ڈاکٹر ماجد رفیع زادے نے عرب نیوز کو بتایا کہ اسلحے کی فروخت پر پابندی اٹھانا علاقائی اور بین الاقوامی استحکام کے لیے اہم خطرہ ہے۔
’دنیا کے بدترین دہشت گردی کے سپانسر ملک کو لامحدود روایتی ہتھیار رکھنے کی اجازت دینا، تاریخ میں دنیا کا امن خراب کرنے والے ایک خطرناک موقعے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس سے فائدہ اٹھانے والے  پاسداران انقلابی اسلام، خطے میں اس کے پراکسیز اور مسلح گروپس ہیں۔ جدید ترین اسلحہ شامی ڈکٹیٹر بشارالاسد، ایران کے دہشت گرد اور مسلح گروپوں جیسے کہ حوثی، حزب اللہ، حماس اور عراق میں ایرانی حمایت یافتہ مسلح دھڑوں کے ہاتھوں آ سکتا ہے۔‘

تہران نے ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی کی مدت کے خاتمے کو بین الاقوامی کامیابی قرار دیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

سکیورٹی تجزیہ کار ڈاکٹر تھیوڈور کیراسک کہتے ہیں کہ ہتھیار بنانے کی صلاحیت کے لیے ایران نے پہلے  دیگر ممالک سے تکنیکی ڈیٹا حاصل کیا۔
ڈاکٹر تھیوڈور کیراسک کے مطابق تہران کی اسلحہ انجینیئرنگ اور ریورس انجینیئرنگ کا مطلب ہے کہ ایران چھوٹے ہتھیاروں کی ممکنہ خریداری کرے گا جیسے کہ روس سے کورنیٹ اینٹی ٹینک میزائل خریدے گا اور ڈرون حملوں کے خلاف چینی آپٹیکل جیمر حاصل کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’ ایران رشین ایس 400 ایئر ڈیفنس اور ساحلی دفاعی نظام بیسٹن کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ چین کو بھی اس سے فائدہ ہوگا، یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ ایران اینٹی شپ کروز میزائل سی۔802 خریدے گا اور ممکن ہے کہ نیول کنٹرول کرافٹ چین سے لیں۔‘

شیئر: