Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زلزلہ ٹیکس کی رقم کہاں استعمال ہوئی، ترک حکومت پر دباؤ

حکومت یہ ٹیکس زلزلے سے متاثر ہونے والوں کے لیے وصول کر رہے ہیں اور  پھر بعد میں وہ اسے عام بجٹ میں ضم کر دیتے ہیں (تصویر : اے ایف پی)
ترکی کے شہر ازمیر میں گذشتہ جمعے آنے والے زلزلے میں کم سے کم 110 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ جس کے بعد ترک حکومت کے پاس موجود ٹیکس جمع شدہ رقم کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ترک حکومت پراس بات کی وضاحت کے لیے دباؤ بڑھتا نظر آرہا ہے کہ  ٹیکس کی مد میں جمع کی گئی رقم کہاں ہے؟ جو ترکی کی عوام 20 سال سے زیادہ کے عرصے سے ادا کرتی آئی ہے۔
یہ ٹیکس 1999 میں آنے والے7.4 شدت کے زلزلے کے بعد نافذ کیا گیا تھا اس زلزلے میں 17000 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس ٹیکس سے حاصل ہونےو الی رقم کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا رہا ہے کہ اس کا استعمال عمارتوں کی بہتری، اور مختلف منصبوں کے لیے بطور فنڈ استعمال کیا جائے گا جس کے باعث ترکی میں آئندہ آنے والے زلزلوں سے نمٹا جا سکے۔
تاہم ماہرین اور حزب اختلاف کے سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ ٹیکس سے حاصل شدہ رقم کا زیادہ تر حصہ زلزلے سے بچاؤ کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر خرچ نہیں ہوا تھا۔ اور اس رقم کے استعمال کے طریقہ کار پر بہت سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔
ترک شہریوں نے 1999 کے بعد اکھٹے ہونے والے زلزلے کے ٹیکسوں میں 147.2 ارب ترک لیرا (17.5 ارب ڈالر) ادا کیے ہیں۔

سی ایچ پی کی جانب سےترک حکومت سے ٹیکسوں کے استعمال کے طریقہ کار کے بارے میں شفافیت سے جوابات منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیاجا رہا ہے۔(فوٹو : اے ایف پی)

ملک کی مرکزی حزب اختلاف ریپلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) نے حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ جو رقم شہروں کو زلزلے سے بچانے کے لیے استعمال کی جانی چاہیے تھی حکومت اس میں سے  71 ارب لیرا سے زیادہ کا غلط استعمال کیا ہے۔
سی ایچ پی کے رہمنا کمال قلیچ دار اوغلو نے پارلیمانی تقریر کے دوران اس الزام کی حمایت کرتے ہوئے سوال کیا کہ زلزلے کے ٹیکس کی رقم کہاں گئی ؟ جب شامیوں کی بات آتی ہے تو بہت پیسہ ہوتا ہے؟‘
وکیل اور سی ایچ پی سیاست دان الپے اینتمن نے عرب نیوز سے کو بتایا کہ ’اس رقم کا مقصد شہری تبدیلی اور زلزلے سے بچاؤ کے لیے رہائشی عمارتوں کو لچکدار بنانے کے لیے استعمال کیاجانا تھا، تاہم ان ٹیکسوں کا تقریب 70 ارب لیرا دوسرے مقاصد پر خرچ ہوا۔‘
پچھلے سال انہوں نے زلزلے کے ٹیکسوں کے استعمال کے بارے میں پارلیمنٹ اور وزیر خزانہ بیرات البیریک کو  انکوائری رپورٹ پیش کی۔ جس کے بعد انہیں وزرات داخلہ کی جانب سے انہیں کہا گیا کہ ان کے پاس اس قسم کی کوئی معلومات نہیں ہیں۔
انتمین نے مزید کہا  کہ ’وہ یہ ٹیکس زلزلے سے متاثر ہونے والوں کے لیے وصول کر رہے ہیں اور  پھر بعد میں وہ اسے عام بجٹ میں ضم کر دیتے ہیں حکومت کے مالی وسائل اس قدر کم ہو چکے ہیں کہ وہ تمام دستیاب وسائل کا استعمال کرتی ہے۔‘
زلزلے کے ٹیکس کے استعمال میں بدعنوانی کے الزامات میں کوئی نئی بات نہیں ہے اس سے قبل جنوری میں صدر طیب اردوغان نے یہ کہہ کر ان دعوؤں کا جواب دیا تھا کہ ’ہم نے رقم وہیں خرچ کی جہاں کرنی چاہیے تھی ہمارے پاس اس طرح کے معاملات کے لیے جوابات دینے کا وقت نہیں ہے۔‘
اس معاملے نے ایک بار پھر زور پکڑ لیا ہے اور سی ایچ پی  حکومت سے حساب کتاب کرنے کے لیے بار بار طلب کر رہی ہے جب کہٹیکسوں کے استعمال کے طریقہ کار کے بارے میں شفافیت سے جوابات منظر عام پر بھی لانے کا مطالبہ جاری ہے۔

شیئر: