Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا کویت میں پاکستانیوں کی نوکریاں متاثر ہونے کا امکان ہے؟

حکام کے مطابق عنقریب کویت اور پاکستان کے درمیان ایک لاکھ افراد بھیجنے کے حوالے سے ایم او یو پر دستخط ہوں گے (فائل فوٹو: روئٹرز)
کویت نے حال ہی میں ’کویتائزیشن‘ یعنی ’سب سے پہلے کویت‘ کا اعلان کرتے ہوئے کویتی شہریوں کو ملازمتوں پر رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے سے کویت میں موجود پاکستانیوں کی نوکریاں متاثر ہونے کا امکان ہے۔
پاکستانی حکومت نے بھی اس صورت حال میں نہ صرف اپنے ورکرز کی نوکریاں بچانے بلکہ نئی ملازمتوں کے مواقع اور ویزہ پابندیوں کے خاتمے کے حوالے سے کوششیں شروع کر دی ہیں جس کے نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔
پاکستان بیورو آف امیگریشن کے ڈی جی کاشف نور کے مطابق ’پاکستان کویتی حکام کو اس بات پر قائل کر رہا ہے کہ وہ اس عمل کے دوران پاکستانی ورکرز کو بے روزگار ہونے سے بچائیں۔‘
ان کے مطابق ’حال ہی میں پاکستانی ہیلتھ ورکرز کی کویت روانگی سے پاکستانی کوششوں کی کامیابی میں کردار ادا کرے گی۔
دوسری جانب وزارت سمندر پار پاکستانی کے اعلی حکام پر امید ہیں کہ ’کویت سے پاکستانی ورکرز کے متاثر ہونے کے امکانات زیادہ نہیں ہیں۔‘
حکومتی حلقوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ’کویت اب پاکستان سے پیشہ وارانہ مہارت رکھنے والے ورکرز کی ڈیمانڈ کر رہا ہے۔ کورونا کے باعث کویت کو میڈیکل ہیلتھ کیئرکے شعبے سے وابستہ افراد کی ضرورت پڑی تو اس نے پاکستان کے ساتھ ایم او یو سائن کیا۔
حکام نے بتایا کہ ’پاکستان نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے سفیر سید سجاد حیدر کو ایم او یو پر دستخط کرنے کی ہدایت کر دی جس کے نتیجے میں 208 پاکستانی کویت جا چکے ہیں جبکہ مزید کچھ دنوں میں روانہ ہوں گے۔

پاکستانی ورکرز کی نوکریاں بچانے کے لیے حکام کویت سے رابطے میں ہیں (فائل فوٹو: اوورسیز پاکستانیز)

دوسری جانب حکام یہ بھی بتا رہے ہیں کہ عنقریب کویت اور پاکستان کے درمیان ایک لاکھ افراد کو کویت بھیجنے کے حوالے سے ایم او یو پر دستخط کرنے والے ہیں۔
کویتی لیبر مارکیٹ میں پاکستان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ دس سال کی پابندی کے باوجود کویت اب بھی پاکستانی ورکرز کا پانچواں بڑا میزبان ملک ہے۔
پاکستان بیورو آف امیگریشن کے اعدادو شمار کے مطابق 1971 سے 2010 کے دوران پاکستان سے ایک لاکھ 80 ہزار 755 پاکستانی بسلسلہ روزگار کویت گئے۔ ان میں سے بہت سے واپس آگئے اس کے باوجود اب بھی ایک لاکھ کے قریب پاکستانی کویت میں موجود ہیں۔
2011  میں سکیورٹی خدشات کے باعث کویت نے پاکستانی ورکرز کے لیے ورک ویزہ پر پابندی عائد کر دی تو اس کے بعد یہ سلسلہ تقریباً رک گیا اور نو برس میں صرف تین ہزار 88 افراد ہی کویت جا سکے۔
اسی طرح ترسیلات زر کا جائزہ لیا جائے تو سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق ستمبر 2020 میں کویت زیادہ ترسیلات زر بھیجنے والے ممالک میں ساتویں نمبر پر رہا۔ اس ماہ وہاں مقیم پاکستانیوں نے 68 لاکھ 26 ہزار ڈالر بھیجے۔ جبکہ رواں سال مجموعی طور پر دو  کروڑ ڈالر بھیجے گئے ہیں۔

کویت اب بھی پاکستانی ورکرز کا پانچواں بڑا میزبان ملک ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

2011 میں کویت نے پاکستانی ورکرز کے لیے ویزوں پر پابندی عائد کی تو اس کے ساتھ ہی پاکستانی حکومت نے یہ پابندی ہٹوانے کے لیے کوششیں شروع کیں جو کہ بارآور ثابت نہ ہو سکیں۔ 
2013 میں نواز شریف حکومت کے قیام کے ساتھ ہی کویتی وزیر اعظم نے پاکستان کا دورہ کیا لیکن ورک ویزہ کی بحالی نہ ہو سکی۔
2017 میں اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے کویت کا دورہ کیا تو کویت نے یہ پابندی ختم کرنے کے لیے آمادگی ظاہر کر دی۔ 
موجودہ حکومت کے قیام کے بعد 2019 میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی وزیر اعظم عمران خان کا خصوصی پیغام لے کر امیر کویت سے ملے اور درخواست کی کہ کویت ویزہ پابندیاں ختم کرے۔
اس دوران دونوں ممالک کے درمیان مختلف سطح پر رابطے رہے اور بالآخر کویت نے یہ ویزہ پابندی نرم کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ ایم او یو پر دستخط کیے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں