Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شارجہ میں اسلامی تہذیب کا عجائب گھر

اسلامی فن کے عالمی دن پر شارجہ میں چند شاہکار منتخب کئے گئے ہیں۔(فوٹو عرب نیوز)
اسلامی فن کے عالمی دن کے اعزاز میں 18نومبر کو متحدہ عرب عمارات کے شارجہ میں قائم اسلامی تہذیب کے عجائب گھرکے چند  نایاب شاہکار منتخب کئے گئے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق اس قسم کا ابتدائی اسلامی آرٹ ورک عراق اور چین سے درآمد کئے جانے والے  پرتعیش سامان سے متاثر تھا۔
اسلامی خطاطی سے مزین پیالہ
اس پیالہ کے وسط میں کی گئی خطاطی کا انداز ابتدائی اسلامی کوفی تحریرسے مشابہت رکھتا ہے جو عراقی برتنوں پر کی جاتی تھی تاہم ابھی تک اس کے حروف کی ضابطہ کشائی یا توضیح نہیں کی جا سکی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ حروف کوئی خاص لفظ  بنانے کے ارادے سے نہ لکھے گئے ہوں بلکہ ان کا مقصد محض خوبصورت نقش بنانا ہو۔
دسویں اور 11ویں صدی میں اسلامی دنیا کے مشرقی حصے میں اعلیٰ قسم کی کوزہ گری کی گئی۔ ان میں ایک تکنیک ایسی تھی جس میں گندھی ہوئی مٹی استعمال ہوتی تھی۔
سفید، سیاہ ،بھوری اور بعض اوقات سرخ رنگوں میں کام کرتے ہوئے اسے سرخی مائل  مٹی کے برتنوں کو یکساں رنگ سے تیار کرنے کے لئے استعمال کیاجاتا تھا۔ان پر شیشے جڑنے سے قبل انہیں آرائشی حکمت کے تحت مختلف رنگوں سے  سجایاجاتا تھا۔
ایک  پیالے پر سفید گل صورت کوفی تحریرنمایاں ہے جو برکت کا اظہار ہے ۔یہ گہرے بھورے پس منظرپر  بنائی گئی ہے۔ یہ کریمی سفید زمین پر گہرے رنگ کے نقش کے مقابلے میں  عام نہیں تھی۔

شیشے کے بغیر تیار شدہ برتن اسلامی کوزہ گری کی سب سے عام مصنوعات تھیں۔
 یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو آج کے شیشے والے سامان پر دیئے جانے والے تاریخی زور کے باعث اکثر بھلا دی جاتی ہے۔
12ویں اور14ویں صدی میں اس قسم کے برتن پورے مشرق وسطیٰ میں تیار کئے جاتے تھے۔
 ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے فن پاروں کے حوالے سے علامتی تفصیلات  جن میں شیروں کی شبیہ شامل ہے۔ یہ 10ویں صدی کے مصری راک کرسٹل نقش و نگار سے متاثر محسوس ہوتے ہیں۔

جانوروں کی شبیہ والے فن پارے 13ویں صدی میں شام اور شمالی عراق کے شیشے کے بغیر تیار کئے جانے والے برتنوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔
چمکدار گلدان
یہ 9 ویں صدی میں عراق میں ایجاد کئے گئے جہاں کوزہ گر انتہائی چمکدار ظروف سازی کی پیچیدہ تکنیک کی مہارت رکھتے تھے۔
اس مہنگی تکنیک کی کامیابی اور اس کا تسلسل نہ صرف خام مال کی دستیابی ، اس مقصد کے لئے تعمیر شدہ بھٹوں پر منحصر تھا بلکہ اس کا انحصار اعلیٰ درجے کی سرپرستی  پر بھی تھا۔
جب کبھی سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام کے خطرات نے سر ابھارا  تو یہ کوزہ گر بہتر معاش کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے چنانچہ 12صدی تک یہ فن عراق سے مصر اور شام تک پھیل گیا۔
چینی مٹی سے تیار کی گئی بوتلیں
15ویں سے 17ویں صدی کے دوران چین سے درآمد ہونے والی  نیلی اور سفید چینی مٹی نے اسلامی کوزہ گری کو متاثر کیا۔
ایسے میں نیلے پس منظرمیں سیاہ نقوش والی بوتلیں تیار کی گئیں جنہوں نے چینی درآمدات کا مقامی طور پر مقابلہ کیا۔ انہیں جنوب مشرقی ایشیا اور یورپ میں بھی سپلائی کیاگیا۔
تیل کے لیمپ
تانبے سے تیار شدہ تیل کے لیمپ کے دوران استعمال کئے جاتے تھے۔ اس کی بلب نما ساخت ایسی بنائی گئی تھی جس کے باعث اسے  دیر تک روشن رکھنا ممکن ہو سکے۔
ان پر تحریر بعض عبارتیں راقم کے بارے میں معلومات فراہم کرتی  تھیں جن میں مذہبی اسکالر، استاد، دانشور وغیرہ شامل تھے جو اپنا  زیادہ  وقت پڑھنے لکھنے میں گزارتے تھے۔
 

شیئر: