Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پری گل بلوچستان کی پہلی پولیس افسر

پری گل اپنے گاﺅں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی پہلی خاتون ہیں (فوٹو: فیس بک)
پری گل ترین بلوچستان کی تاریخ میں پہلی خاتون بن گئی ہیں جنہوں نے پولیس میں بطور افسر شمولیت اختیار کی اور اب اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (اے ایس پی ) کی حیثیت سے باقاعدہ کام شروع کر دیا ہے۔ 
پشین سے تعلق رکھنے والی پری گل نے 2017 میں مقابلے کا امتحان یعنی سی ایس ایس پاس کر کے پہلی ترجیح کے طور پر پولیس سروسز آف پاکستان( پی ایس پی ) میں شمولیت اختیار کی۔
انہوں نے اپنی تربیت کے لیے بھی کوئٹہ کا انتخاب کیا۔ تربیت مکمل کرنے کے بعد رواں ہفتے انہیں پہلی بار اے ایس پی کوئٹہ کینٹ کی آپریشنل پوسٹ پر تعینات کر دیا گیا ہے۔ 
یہ کسی خاتون پولیس آفیسر کی پولیس میں خدمات سرانجام دینے کا بلوچستان کی تاریخ میں پہلا موقع ہے۔ پری گل ترین نے اپنی تعیناتی پر خوشی اور صوبے کی عوام کی خدمت کا عزم ظاہر کیا ہے۔
پری گل ترین کا کامیابی کی جانب یہ سفر ہرگز آسان نہیں تھا۔ بلوچستان کے قبائلی اور قدامت پسند معاشرے میں انہیں تعلیم کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
اپنے ایک انٹرویو میں اے ایس پی پری گل ترین نے بتایا کہ ’معاشرتی دباؤ کی وجہ سے انہیں کالج بھی چھوڑنا پڑا لیکن اس کے باوجود انہوں نے ہمت نہ ہاری اور نہ صرف اپنے خاندان بلکہ پشین میں واقع اپنے پورے گاﺅں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی پہلی خاتون بنیں۔ ‘
پری گل کے مطابق ’ثانوی تعلیم تک تو انہوں نے باقاعدہ تعلیم حاصل کی مگر اس کے بعد تعلیم چھوڑنے کے لیے انہیں معاشرتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔‘

پری گل ترین کا کہنا ہے کہ کا کامیابی کی جانب سفر آسان نہیں تھا (فوٹو: اردو نیوز)

’تمام مشکلات باوجود تعلیم ادھوری چھوڑنے کی بجائے میں میں نے پرائیوٹ امیدوار کے طور پر گریجویشن تک تعلیم حاصل کی۔ گریجویشن کے بعد نمل یونیورسٹی اسلام آباد میں داخلہ لیا اور انگریزی ادب اور لسانیات میں ماسٹرز کیا۔‘
ماسٹرز کے بعد پری گل نے2017 میں سی ایس ایس کا امتحان دیا اور پورے صوبے میں نمایاں پوزیشن حاصل کی۔ 
اپنے خاندانی پس منظر سے متعلق خاتون پولیس آفیسر نے بتایا کہ’ وہ بلوچستان کے ضلع پشین کے ایک معزز پشتون کاروباری خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جس میں کیریئر کو آگے بڑھانے کے لیے تعلیم کبھی ترجیح نہیں رہی۔‘
’روایتی اور قدامت پسند معاشرے میں رہنے کے باوجود میں اپنے والدین اور بھائیوں کی شکر گزار ہوں جو انتہائی مہربان اور معاون ثابت ہوئے۔‘
پری گل کا کہنا تھا کہ شادی کے بعد ان کے شوہر نے بھی ان کا بھر پور ساتھ دیا۔ ان کی مدد کے بغیر ان کا اس مقام تک پہنچنا ممکن نہیں تھا۔

بلوچستان میں اکثر خواتین قبائلی روایات کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کر پاتی (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے بتایا کہ ’انہیں شروع سے ہی پولیس کی وردی اپنی جانب راغب کرتی تھی اس لیے انہوں نے پولیس میں شمولیت اختیار کی۔ وہ اپنے خاندان کی واحد فرد ہیں جس نے پولیس کا انتخاب کیا۔ ‘
انہوں نے بتایا کہ’ بلوچستان میں باقی شعبوں میں تو خواتین بہت ہیں مگر مواقع کے باوجود پولیس کبھی خواتین کا انتخاب نہیں رہا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اب ان کے آنے کے بعد ایک اور لڑکی کائنات اظہر خان نے بھی بطور آفیسر پولیس جوائن کیا ہے اور اب زیر تربیت ہیں۔‘
پری گل کے مطابق ’کوئٹہ میں تربیت کے دوران وردی میں دیکھ کر لڑکیاں ان سے متاثر ہوتی تھیں۔ ’میرے آنے کے بعد مزید لڑکیاں بھی خوشی سے پولیس میں آنا چاہتی ہیں۔‘

شیئر: