Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قطر سے فوجی معاہدے پر تنقید: ترک سیاستدان کے خلاف تفتیش

بساریر نے فوج کے لیے گاڑیاں بنانے والے کمپنی بی ایم سی کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر تنقید کی تھی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
قطر کے ساتھ فوجی معاہدے پر تنقید کرنے والے ترک اپوزیشن سیاستدان نے اپنے بیان کا دفاع کیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق ریپبلکن پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ممبر پارلیمنٹ ماہر بساریر نے کہا تھا کہ 26 نومبر کو ترکی اور قطر کے درمیان ہونے والے معاہدوں کے تحت ترکی کی فوج کو قطر کو بیچ دیا گیا۔
’ہم ایک ایسے پوائنٹ پر پہنچ گئے ہیں جہاں ریاست کی فوج کو تاریخ میں پہلی مرتبہ قطر کو بیچ دیا گیا‘۔
انہوں نے گزشتہ سال فوج کے لیے گاڑیاں بنانے والے کمپنی بی ایم سی کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر تنقید کی۔
انقرہ کے چیف پراسکیوٹر آفس نے 29 نومبر کو ماہر بساریر کے خلاف ترکی کی حکومت اور فوج کو بدنام کرنے کے الزام میں تحقیقات شروع کی تھیں۔
اتوار کو ممبر پارلیمنٹ بساریر نے ٹویٹ کی کہ ان کا بیان آرمی کے خلاف نہین تھا۔ ’آرمی کی فیکڑی کو ایک دوسرے ملک کو بیچنا غداری ہے اور دھوکہ دہی ہے‘۔
بساریر کے بیان پر حکومتی عہدیداروں نے سخت تنقید کی اور بعض افراد نے انہیں شامی صدر بشار الاسد کا حمایتی بھی قرار دیا تھا۔
حکمران جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے ڈپٹی لیڈر ماہر اونال نے کہا کہ یہ ممبر پارلیمنٹ ہماری قوم کی نمائندگی کرنے کا اہل نہیں۔ ’انہیں فوراً معافی مانگنی چاہیے‘۔
اے کے پارٹی کے ترجمان عمرا سیلک نے بساریر پر آرمی کے خلاف زہریلی زیان استعمال کرنے کا الزام لگایا۔
امکان ہے کہ ترک وزارت دفاع ’فوج اور ترک فوجیوں کی توہین‘ کے معاملے پر مذکورہ ممبر پارلیمنٹ کے خلاف شکایت درج کرائے جب کہ میڈیا کا نگران ادارہ اس معاملے کی چھان بین کرے۔
ترکی کی ٹینک بنانے والی اہم فیکٹری 2019 میں ترک اور قطری نجی شعبے کو منتقل ہو چکی ہے۔
بی ایم سی کے ترک پارٹنر ایتھم سانچک ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے خاصے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ ٹینک بنانے کی فیکٹری 25 برس کے لیے بی ایم سی کو لیز پر دی گئی ہے لیکن اس کی قیمت آج تک پبلک نہیں کی گئی ہے۔
معاہدے کے وقت اسے اپوزیشن کی جانب سے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ترکی کی دفاعی صلاحیت کے لیے اس فیکٹری کی تزویراتی اہمیت پر زور دیا گیا تھا۔
گزشتہ برس قطر نے بھی تقریبا 100 ٹینک خریدنے کے لیے ترکی سے ایک ارب ڈالر کا معاہدہ کیا ہے۔
تاہم جرمنی ترکی سے متعلق سیاسی خدشات کی وجہ سے اب تک ٹینک بنانے کے لیے لازمی جزو انجن ٹیکنالوجی سے متعلق اپنی مہارت شیئر کرنے میں پس وپیش سے کام لے رہا ہے۔
ترک اپوزیشن جماعت سی ایچ پی کے رہنما الپے انتمین کا اپنی ٹویت میں کہنا تھا کہ ’یہ حکومت قطریوں کو ترکوں سے زیادہ پسند کرتی ہے جو کہ سراسر جذباتی معاملہ ہے‘۔

شیئر: