Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بیماری سے لڑیں یا اسائنمنٹ جمع کروائیں‘ کورونا سے متاثرہ طلبہ ذہنی دباؤ کا شکار

آن لائن کلاسز کی مشکلات کے باعث طلبہ کا تعلیمی ادارے کھولنے کا مطالبہ ہے۔ فوٹو اے ایف پی
’میرے گھر میں دادا دادی سمیت تمام 14 افراد کورونا وائرس کا شکار تھے۔ اس کے باوجود مجھے آن لائن کلاسز لینا پڑیں۔ میرے جسم میں اتنی کمزوری تھی کہ خود سے کروٹ بھی نہیں بدل سکتا تھا۔ مجبوری میں موبائل یا لیپ ٹاپ پکڑ کر محض آنکھیں جما کر لیکچر سنتا تھا۔ کئی ایک اسائنمنٹس بھی بیماری کی وجہ سے بروقت جمع نہیں کرا سکا۔‘
یہ کہنا ہے راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے انعام علی کا جو اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں سوشل سائنسز ڈیپارٹمنٹ میں ایم ایس کر رہے ہیں۔ 
اردو نیوز سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ’جب یہ کہہ دیا جائے کہ آپ کو اسائنمٹس جن کے نمبر فائنل نتائج میں شامل کیے جائیں گے آج ہی جمع کرانی ہیں اور کل قبول نہیں کی جائیں گی۔ بیماری کے باوجود یہ دباؤ ہو تو پھر ایک طالب علم کیا کر سکتا ہے۔ یہ واقعی ایک بہت بڑا ظلم تھا۔‘
پاکستان میں کورونا وبا کی دوسری لہر کے باعث تمام تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاہم تعلیمی اداروں بالخصوص جامعات میں آن لائن کلاسز کے ذریعے تعلیمی سلسلہ جاری رکھا گیا۔
طلبہ کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات کی روشنی میں یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ سمسٹر کا آخری ماہ ہونے کے باعث طلبہ کے لیے کلاسز اور اسائنمنٹس کو لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔
ایسے میں کورونا وائرس کا شکار ہونے والے طلبہ کے لیے ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ انہیں یونیورسٹی آنے کی ضرورت نہیں تاہم بیماری کی حالت میں بھی آن لائن کلاسز لینا پڑیں گی۔ اس صورت حال میں بہت سے طلبہ ذہنی و جسمانی طور پر شدید متاثر ہوئے ہیں۔
طالب علم انعام علی نے بتایا کہ ’جب سارے گھر والے ہی کورونا کا شکار تھے تو بیماری کے باوجود مجھے دادا، دادی، والد والدہ کو دیکھنا پڑ رہا تھا۔ ہم 24 گھنٹے ایک دوسرے کا خیال رکھ کر آگے بڑھ رہے تھے۔‘

طلبہ نے آن لائن کلاسز کے باعث ذہنی دباؤ کی شکایت کی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

’اس حالت میں بھی میرے اوپر دباؤ تھا کہ کلاسز لیں ورنہ فیل ہو جائیں گے۔ ظاہر ہے 35 ہزار روپے فیس دی ہوتی ہے اس کے ساتھ وقت کے ضیاع کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ اگرچہ سمسٹر کے اختتام تک میں کافی حد تک سنبھل گیا ہوں لیکن اسائنمنٹس اور کلاسز کی جو ٹینشن مجھے کورونا کے دوران ملی وہ کسی تشدد سے کم نہیں تھی۔‘
اسلام آباد کی ایک اور یونیورسٹی کے طالب علم زین انصر کا کہنا ہے کہ کورونا سے ساری دنیا اور ہر شعبہ ہی متاثر ہوا لیکن یونیورسٹی طلبہ کے لیے یہ وبا بہت بڑا عذاب بن کر آئی ہے۔
’بیماری کے باوجود صبح 9 بجے سے شام پانچ بجے تک کلاسز، انٹرنیٹ مسائل کی وجہ سے لیکچر ڈاؤن لوڈ کرنے میں تاخیر اور پھر اسائنمنٹس تیار کرتے کرتے رات کا ایک بج جاتا ہے۔‘
کراچی سے تعلق رکھنے والی فاطمہ مہدی انجینئرنگ کی طالبہ ہیں۔ ان کی آن لائن کلاسز کا سلسلہ جاری تھا کہ گھر کے تمام پانچوں افراد کورونا کا شکار ہوگئے، جن میں والدہ اور والد کے علاوہ دو بھائی بھی شامل تھے۔ 
اردو نیوز سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ’بیماری کی وجہ سے ٹیچر سے کچھ دنوں کی مہلت مانگ بھی لیتے ہیں اور مل بھی جاتی ہے، لیکن وہ ایک حد تک ہوتی ہے۔ استاد کی جانب سے مہلت کے باوجود آپ کو اسائنمنٹس تو ہر صورت کرنی ہیں۔ بیماری کی وجہ سے میں بہت سی کلاسز بھی نہیں لے سکی اور جسمانی و ذہنی صحت پر اس بیماری کے اثرات کی وجہ سے میرے فائنل گریڈ بھی متاثر ہوئے ہیں۔‘

آن لائن کلاسز کے باعث طلبہ نے ذہنی دباؤ کا شکار ہونے کی شکایت کی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

فاطمہ مہدی نے بتایا کہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ یونیورسٹی اور اساتذہ کی جانب سے وبائی صورت حال کے باوجود کلاسز اور اسائنمنٹس کے حوالے سے طلبہ سے ایسے کام کی توقع کی جا رہی ہے جیسے نارمل یونیورسٹی لائف چل رہی ہے۔ حالانکہ وہ سب کچھ نارمل نہیں ہے۔‘
صرف طلبہ ہی اس صورت حال سے متاثر نہیں ہیں بلکہ ان کے والدین بالخصوص مائیں اپنے بچوں کی صحت اور کام کے بوجھ کی وجہ سے شدید پریشان ہیں۔ 
فاطمہ مہدی کی والدہ اسریٰ مہدی کہتی ہیں کہ ’بیماری کے باوجود بچوں کی جانب سے آن لائن کلاسز لینا میرے لیے بے آرامی کا باعث بن رہا ہے۔ بچوں کو شدید بخار، کھانسی اور جسم درد کی حالت میں کلاسز اور اسائنمنٹس کا دباؤ لیتے دیکھا تو میرے لیے یہ بات شدید پریشانی کا باعث بنی۔
’مجھے ٹینشن ہے کہ جب ڈاکٹر آرام کا مشورہ دیتے ہیں تو میرے بچے تو دہرے دباؤ کا شکار ہیں۔‘ 
دوسری جانب اساتذہ اس صورت حال کو مختلف نظر سے دیکھتے ہیں۔ یونیورسٹی لیکچرار مائدہ خان کے کئی طلبہ کورونا کا شکار ہو چکے ہیں، وہ خود بھی صبح سے لے کر شام تک آن لائن کلاسز لیتی ہیں۔ 
مائدہ خان نے اعتراف کیا کہ کورونا کا شکار طلبہ یقیناً اس وقت ذہنی دباؤ کا شکار ہیں، ایک ڈیڈ لائن ٹیچر کی طرف سے ہوتی ہے اور دوسری یونیورسٹی کی جانب سے اساتذہ کو دی جاتی ہے۔

کورونا کی دوسری لہر کے بعد حکومت نے تعلیمی ادارے بند کر دیے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

’اساتذہ اپنی ڈیڈ لائن کی حد تک تو طلبہ کے ساتھ تعاون کرتے ہیں لیکن سمسٹر ختم ہو رہا ہو تو پھر ہمیں دباؤ بڑھانا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود ہم اس بیماری سے لڑنے والے طلبہ کو سہولت فراہم کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ کچھ طلبہ تو بیماری کے باوجود ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور استاد کی طرف سے ملنے والی سہولت کا بہتر استعمال کرتے ہیں، لیکن کچھ طلبہ ایسے بھی ہیں جو بیماری کو بطور بہانہ استعمال کر رہے ہیں۔
ماہر تعلیم فاریحہ عزیز نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’کورونا کی دوسری لہر میں طلبہ زیادہ دباؤ میں ہیں۔ اپنی بیماری کے ساتھ ساتھ ان کے اساتذہ اور فیملیز بھی بیماری کا شکار ہیں۔ کچھ اساتذہ کی ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ اس لیے مشکلات بڑھ گئی ہیں۔‘
فاریحہ عزیز کا کہنا تھا کہ یونیورسٹیوں کو کورونا کا شکار طلبہ کے لیے نئے طریقہ کار کی ضرورت ہے تاکہ ان کی ڈیڈ لائنز کو آگے بڑھایا جا سکے۔
’اس کے علاوہ طلبہ کی نفسیاتی اور جذباتی صحت کا خیال کرتے ہوئے آن لائن کلاسز کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے سیشنز کا بھی اہتمام کرنا چاہیے جو ان کو اس مشکل صورت حال سے نکلنے میں مدد دے۔‘

شیئر: