Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’وزیرِاعظم کے الفاظ سنے، مسکرائے اور استعفیٰ تھما دیا‘

ندیم افضل چن نے وزیراعظم کے کوئٹہ نہ جانے کے فیصلے پر دبے لفظوں میں تنقید کی تھی (فوٹو: پی ایم آفس)
یہ منگل کا معمول کا دن تھا۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد حکومتی ترجمانوں کی بیٹھک تھی۔ اہم امور پر حکومتی دماغ اپنا اپنا موقف اپنے اپنے انداز میں بیان کرتے رہے۔ پی ڈی ایم کو قابو کرنے اور براڈشیٹ کے معاملے کو میڈیا میں اپنے حق میں استعمال کرنے سمیت مہنگائی اور امن و امان پر سب نے کھل کر رائے دی۔  
ایسے میں وزیراعظم عمران خان اجلاس سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ ’جس کو حکومتی پالیسیوں اور فیصلوں سے اختلاف ہے وہ مستعفی ہوجائے۔‘

 

واقفان حال نے اردو نیوز کو بتایا ’جب وہ یہ کہہ رہے تھے اس وقت معاون خصوصی اور وزیراعظم کے ترجمان ندیم افضل چن بھی اجلاس میں شریک تھے۔ انہوں نے اپنے انداز میں وزیراعظم کے کوئٹہ نہ جانے کے فیصلے پر دبے لفظوں تنقید کی تھی اور ہزارہ مزدوروں سے شرمندگی کا اظہار کیا تھا۔‘
ان کی اس ٹویٹ کے بعد اپنے ہی ساتھی، معاون خصوصی شہباز گِل سے لفظی جنگ بھی ہوئی تھی۔
باخبر ذرائع بتاتے ہیں کہ ندیم افضل چن نے وزیراعظم کے الفاظ سنے، مسکرائے، لب ہلائے اور اجلاس ختم ہونے کے بعد رخصت ہوگئے۔ اگلا ایک دن ندیم افضل چن خاموش رہے اور شام کو چُپکے سے وزیراعظم کے ملٹری سیکریٹری سے ملے اور ایک ٹائپ شدہ استعفیٰ انھیں تھما دیا۔‘
ان ہی باخبر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ’ندیم افضل چن کے استعفے میں مستعفی ہونے کی وجوہات بیان نہیں کی گئیں بلکہ چند سطروں کے استعفے میں انھوں نے وزیراعظم کے ساتھ اپنے دو سال سے زائد کا عرصہ کام کرنے کو اپنے لیے ایک اعزاز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ان سے سیکھنے کا موقع ملا۔‘

وزیراعظم عمران خان نے جنوری 2019 میں ندیم افضل چن کو ترجمان اور معاون خصوصی مقرر کیا تھا (فوٹو: پی ٹی آئی میڈیا)

’وزیراعظم کے اعتماد پر ان کا شکرگزار اور احسان مند ہوں اور مزید گزارش یہ ہے اب میں کام جاری نہیں رکھ سکتا اور دونوں عہدوں یعنی معاون خصوصی اور ترجمان وزیراعظم کی حیثیت سے استعفیٰ دیتا ہوں۔ میرا استعفیٰ منظور کیا جائے۔‘
ذرائع کے مطابق ندیم افضل چن نے اپنے مستعفی ہونے کے بارے میں اپنے اہل خانہ، والد، بھائی اور قریبی دوستوں سے بھی مشاورت نہیں کی تھی۔ ان کے استعفے کے بارے میں صرف ان کے سرکاری سٹاف کے ایک رکن جس نے یہ استعفیٰ ٹائپ کیا تھا کے علاوہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ یہاں تک کہ ندیم افضل چن استعفیٰ دینے کے بعد اپنے فون بند کرکے اپنے ذاتی دوستوں جن میں سے کچھ کا تعلق ان کی سابق جماعت پیپلز پارٹی سے ہے کی محفل میں بیٹھے رہے۔
ان کے دوست ان کو حکومتی ترجمان سمجھ کر انہیں خوب زِچ کرتے رہے یہاں تک کہ ان سب کو بھی ٹی وی پر چلنے والی خبروں سے ہی ندیم افضل چن کے استعفے کے بارے میں معلوم ہوا۔  

ندیم افضل چن نے اپریل 2018 میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی (فوٹو: پی ٹی آئی میڈیا)

استعفے کی خبریں سامنے آنے کے بعد 15 گھنٹے تک ان کے فون بند رہے اور اگلے دن ساڑھے گیارہ بجے انہوں نے اپنے فون آن کیے اور سب سے پہلے اپنے والد سے فون پر بات کرکے صورت حال سے آگاہ کیا۔
ذرائع کے مطابق تادم تحریر حکومت کی جانب سے ندیم افضل چن سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔ ندیم افضل چن نے سرکاری گاڑی، ڈرائیور اور عملہ بھی واپس کر دیا ہے۔
اردو نیوز نے ندیم افضل چن کے انتہائی قریبی خاندانی افراد سے بھی بات کی جنھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ’خاندان کے کسی فرد کو ان کے مستعفی ہونے کے فیصلے کا علم نہیں تھا، تاہم وہ ان کے فیصلے کے ساتھ متفق ہیں۔‘
ندیم افضل چن نے تو اپنے استعفے میں وجوہات بیان نہیں کیں لیکن خاندان کے افراد ان وجوہات سے بخوبی آگاہ ہیں۔

ندیم افضل چن نے اپنے استعفے سے متعلق اہل خانہ اور دوستوں سے مشاورت نہیں کی (فوٹو: پی ٹی آئی میڈیا)

ان خاندانی افراد کا موقف ہے کہ ’ندیم افضل چن کی طبیعت کھری ہے اور وہ کھری بات کرتے ہیں جس کی وجہ سے انھیں ترجمانوں میں وہ ’مقام‘ نہیں مل سکا جو سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید ثابت کرنے والوں کو حاصل ہے۔ اس کے علاوہ حلقے میں ترقیاتی کام ہو یا عوام کے روزمرہ کے کام وہ نہیں ہو رہے تھے، اس وجہ سے یہ عہدے فائدے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہو رہے تھے۔‘
خاندانی ذرائع کے مطابق ’ابھی تک ندیم افضل چن اور خاندان کے باقی سیاسی افراد نے تحریک انصاف چھوڑنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ کچھ حلقوں کی جانب سے یہ مشورہ ضرور دیا جا رہا ہے کہ وہ واپس پیپلز پارٹی میں جائیں لیکن پیپلز پارٹی کی جانب سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔‘
 تاہم یہ معلوم ہوا ہے کہ مسلم لیگ ن جس کے امیدوار نے ندیم افضل چن کو عام انتخابات میں شکست دی تھی کی جانب سے گذشتہ کئی ماہ سے رابطے کرکے انہیں پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی جا رہی تھی۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں
 

شیئر: