Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران کے یورینیئم افزودگی منصوبے پر یورپی طاقتوں کا انتباہ

جوبائیڈن نے تہران سے سفارت کاری میں نئے تعلقات پر رضامندی ظاہر کی ہے۔(فوٹو بی بی سی)
یورپی طاقتوں نے ایران کی جانب سے یورینیئم دھات کی تیاری کے منصوبے پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور انتباہ کیا ہے  کہ تہران کے پاس اس  دھات کی افزودگی کا  عوامی  مقاصد کے لئے قابل اعتماداستعمال موجود نہیں۔
عرب نیوز کے مطابق روئیٹرز میں شائع ہونے والی خبر میں واضح کیا گیا ہے کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے وزرائے خارجہ نے اپنےمشترکہ بیان میں کہا ہےکہ یورینیئم کی پیداوار انتہائی قوی  فوجی  ضروریات کی حامل ہوسکتی ہے۔

2015 کے معاہدے میں تہران کی ایٹمی تحقیقی عزائم روکنے پراتفاق ہوا تھا۔(فوٹو عرب نیوز)

ایران نے 2015 میں عالمی طاقتوں کے ساتھ 15سالہ پابندی کے ’’جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن‘‘ ، ’’جے سی پی او اے‘‘پر دستخط کر رکھے ہیں جس کے تحت پلوٹونیئم اور یورینیئم دھاتوں کی تیاری یا  ان کے حصول پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
یورپی وزرائے خارجہ نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ہم ایران پر زور دے کر گذارش کرتے ہیں کہ وہ  اپنی ان سرگرمیوں کو روکے۔ ایران اگر اپنے 2015 کے معاہدے پر سنجیدہ ہے تو اس کے تحفظ کے لیے مشترکہ اہم  پلان آف ایکشن کے تحت  اپنے وعدوں کی تعمیل پر قائم رہے۔

یورپی وزرائے خارجہ نے بیان میں کہا ہے کہ ایران ایٹمی سرگرمیاں روکے۔(فوٹو بی بی سی)

یورپی ممالک کی جانب سے یہ مطالبہ اس وقت سامنےآیا ہے جب ایران کی جانب سے یورینیم دھات کی تیاری کے بارے میں تحقیق کو آگے بڑھانے کے بارے میں اقوام متحدہ کی ایٹمی انسپکشن تنظیم کو بتایا گیا ہے۔
اس ضمن میں ایران کا یہ کہنا ہے کہ اس کا مقصد تہران میں ایک ریسرچ ری ایکٹر کے لئے جدید ایندھن فراہم کرنا ہے۔
ایران کے ساتھ  امریکہ ، چین ، روس ، برطانیہ ، فرانس اور جرمنی کے مابین2015 کے معاہدے میں تہران کی ایٹمی تحقیق کےعزائم  کو روکنے کے لئے اتفاق رائے ہوا تھا۔
ایران کی حکومت نے20 جنوری کو اقتدار سنبھالنے والے امریکہ کے نومنتخب صدر جوبائیڈن کے ساتھ نئے طریقے سے تعلقات بنانے کا اشارہ دیا ہے ۔  
امریکہ کے نو منتخب صدر جوبائیڈن نے تہران کے ساتھ  سفارت کاری میں  دوبارہ سے واپس آنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
 

شیئر: