Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گھسی پٹی محبت: ’ تارے توڑنے والے کی تلاش کیوں‘

یہ وہ کہانی ہے جو معاشرے میں پائے جانے والے رویوں پر سوال اٹھاتی ہے۔ فوٹو: اے آر وائی فیس بک
ڈرامہ سیریل ’گھسی پٹی محبت‘ ایک ایسی سماجی کہانی ہے جو یہ بتاتی ہے کہ ’عورت اگر اپنی شناخت سے روشناس ہوجائے تو وہ کچھ سے کچھ ہوجاتی ہے‘۔
یہ وہ کہانی ہے جو معاشرے میں پائے جانے والے رویوں پر سوال اٹھاتی ہے، یہ وہ کہانی ہے جو شعور دیتی ہے کہ اگر کوئی رشتہ نہیں چل رہا تو ضروری نہیں کہ اب یہ روگ ہی بن جائے۔  
سامعہ کے کردار کو مصنف نے اس انداز سے پیش کیا ہے کہ لڑکیوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ کردار تو نہ صرف ہمارے اندر بلکہ اردگرد ہر جگہ موجود ہے لیکن افسوس یہ کردار ہمیں سکرین پر نہ ہونے کے برابر نظر آتا ہے۔
مصنف نے بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ اس کہانی کو روٹین میں دکھائے جانے والی روایتی کہانیوں سے مختلف کیا ہے۔ طلاق اس میں بھی ہے، محبت میں ناکامی بھی ہے لیکن اس کے منظر نامے کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔
آج کل ٹی وی ڈرامے دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے زیادہ تر کہانیاں ایک ہی آدمی نے لکھی ہیں ایک طرح کا پیٹرن ہے: ہر کہانی میں عورت مار کھا رہی ہے، کسی کی محبت میں آہیں بھر رہی ہے اچھی ہے تو فرشتہ صفت ہے بری ہے تو اس حد تک بری ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی، کوئی بھی کہانی معاشرتی حقیقتوں پر سوال اٹھانے سے عاری نظر آتی ہے۔
ڈرامہ نگار فصیح باری خان نے سامعہ کے کردار کو ایک نارمل اور عام لڑکی کا کردار بتایا ہے، وہ کسی بھی طرح غیر معمولی لڑکی نہیں ہے وہ زندگی کے دھکے کھاتی ہے، غلط فیصلے بھی کرتی ہے لیکن انہیں مانتی بھی ہے کہ اس سے کچھ غلط ہوا ہے لیکن اسے اطمینان اس بات کا ہے کہ اس کے فیصلے کوئی اور نہیں وہ خود کر رہی ہے۔

اس ڈرامے کی مقبولیت کا اندازہ اس چیز سے لگایا جا سکتا ہے کہ پہلی قسط کو ہی یوٹیوب پر 60، 65 لاکھ لوگ دیکھ چکے ہیں فوٹو: سکرین گریب

آج کل روشن خیالی اور ویمن امپاورمنٹ کی بات سرسری انداز میں کی جاتی ہے، 'گھسی پٹی محبت' صحیح معنوں میں ویمن امپاورمنٹ کی بات کرتا ہے۔ سامعہ اگر اپنے رشتے میں ناکام ہوئی تو اس نے تکلیف دہ تعلق سے نکل کر خود کو پہچان لیا باہر نکل کر کام کیا باقی لڑکیوں کی طرح اسے بھی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری۔
’گھسی پٹی محبت‘ کی جو بہت ہی خوبصورت بات رہی وہ یہ کہ اس ڈرامے نے سوسائٹی کو بھی پیغام دیا ہے کہ ٹرانس جینڈرز کو بھیک دیکر ان کی عادتیں خراب نہ کریں بلکہ ان سے کام کروائیں اور انہیں حوصلہ دیں کہ یہ بھی نارمل لوگ ہیں اور نارمل زندگی گزار سکتے ہیں۔
یہ کہانی یہ بھی بتاتی ہے کہ اگر کوئی فیصلہ غلط ہو گیا ہے تو اسکو اپنے انداز میں ٹھیک کیسے کرنا ہے۔
سامعہ کا کردار کوئی فینٹسی نہیں ہے ہمیں زندگی میں اپنے اردگر گرد نظر آتا ہے لیکن یہ لڑکی حقیقی زندگی میں بہت ہی ڈری سہمی ہوئی نظر آتی ہے جو بولتی نہیں ظلم سہتی ہے صرف اس لیے کہ لوگ کیا کہیں گے۔

ڈرامہ نگار فصیح باری خان نے سامعہ کے کردار کو ایک نارمل اور عام لڑکی کا کردار بتایا ہے (فوٹو: اے آر وائی فیس بک)

بہت سارے ڈراموں میں عورت کو ایک آبجیکٹ کے طور پر دکھایا جا رہا ہے کہیں وہ کسی کو علیحدہ کروا رہی ہے کہیں دو بہنیں کسی لڑکے کے لیے گتھم گتھا ہو رہی ہیں 'گھسی پٹی محبت' نے عورت کے زندگی کے اصل مقاصد کیا ہیں وہ بتانے کی کوشش کی ہے۔
اس ڈرامے میں ایک ڈائیلا گ ہے کہ ’آسمان کو چھونے کے لیے تارے توڑنے والے کی تلاش کیوں‘، یہ ڈائیلاگ یہ بتاتا ہے کہ اگر کسی عورت کی زندگی میں ہے بھی تو وہ کیوں آسمان کو نہ چھوئے آسمان تو اس کا اپنا ہے وہ کیوں نہ اسے چھوئے۔
سامعہ کہتی ہے کہ جب کام کرنا ہے تو پھر یہ تخصیص کیوں کی جائے کہ فلاں کام تو مرد کر سکتا ہے فلاں کام تو عورت کرہی نہیں سکتی۔

مرکزی کردار رمشا خان اور وجاہت علی ادا کر رہے ہیں (فوٹو: اے آر وائی فیس بک)

ہمارے ہاں روایتی کہانیوں کو دکھائے جانے پر تنقید ضرور کی جاتی ہے لیکن سنجیدہ موضوعات جو سوال اٹھاتے ہیں ان پر اس لیے توجہ نہیں دی جاتی کہ لوگ کیا کہیں گے گھسی پٹی محبت ایک ایسا ڈرامہ ہے جس کو لوگ کئی برسوں تک دیکھیں گے آج لوگ نیٹ فلیکس/ ایمازون/ ویب پر جا چکے ہیں لہٰذا وہ وہاں ایسی کہانیاں دیکھ رہے ہیں جو زندگی کی حقیقتوں سے پردہ اٹھاتی ہیں اب لوگ اپنی کہانیوں میں بھی ایسی چیزیں ڈھونڈنے لگے ہیں۔
اس ڈرامے کی مقبولیت کا اندازہ اس چیز سے لگایا جا سکتا ہے کہ پہلی قسط کو ہی یوٹیوب پر 60، 65 لاکھ لوگ دیکھ چکے ہیں حالانکہ یہ کہانی ہیرو ہیروئین کی لو سٹوری نہیں ہے سنجیدہ موضوع کی حامل یہ کہانی کمرشل ڈراموں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔

شیئر: