Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سرفراز کا کیریئر بینچ پر بیٹھے بیٹھے ختم ہو جائے گا؟

محمد رضوان تینوں فارمیٹس میں سنچری بنانے والے پہلے پاکستانی وکٹ کیپر بلے باز بنے ہیں (سکرین گریب)
پاکستان کرکٹ ٹیم کو چیمپیئنز ٹرافی کا فاتح بنانے والے سرفراز احمد خاصے عرصے بعد ٹیم میں واپس آئے لیکن ابھی وہ پلینگ الیون کا حصہ نہیں بن سکے تھے کہ محمد رضوان کے بلے نے رنز اگلنا شروع کر دیے۔
گزشتہ روز پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں سینچری کرنے کے بعد محمد رضوان دنیائے کرکٹ کے دوسرے جب کہ پاکستان کے پہلے وکٹ کیپر بلے باز بن گئے ہیں جو کرکٹ کے تینوں فارمیٹس میں سینچریز کر چکے ہیں۔
سوشل میڈیا صارفین نے محمد رضوان کی سینچری پر جہاں انہیں خوب سراہا وہیں سوشل ٹائم لائنز پر یہ سوال بھی زیرگردش رہا کہ کیا سرفراز احمد کا کیریئر ختم ہو گیا ہے یا یونہی بینچ پر بیٹھے بیٹھے وہ بین الاقوامی کرکٹ کو خیرباد کہہ دیں گے؟
 

سرفراز احمد کا ذکر محبت سے کرنے والے کرکٹ شائقین اس صورتحال پر ابہام کا شکار دکھائی دیے کہ وہ اچھی کارکردگی پر محمد رضوان کو سراہیں یا سابق کپتان کے ساتھ اظہار ہمدردی کریں۔
 

پاکستانی وکٹ کیپر بلے باز کی عمدہ کارکردگی اور 67 گیندوں پر سینچری پر انہیں سراہا گیا تو شائقین کرکٹ اس دوران بینچ پر موجود سرفراز احمد کے مثبت رویے کو نظرانداز نہ کر سکے۔
 

محمد رضوان کی سینچری پر پاکستانی کرکٹ شائقین نے کہیں ان کا موازنہ عالمی سطح پر معروف پلیئرز سے کیا تو لکھا کہ جب کرکٹ کے تینوں فارمیٹس میں سینچری اننگز کھیلی جائے تو مسکرانا بنتا ہے۔
 

کرکٹ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ میں گزشتہ تین دہائیوں سے وکٹ کیپرز بلے بازوں کی تاریخ بڑی دلچسپ رہی ہے۔ بھرپور فارم میں موجود وکٹ کیپر کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا کھلاڑی اس سے بہتر کارکردگی دکھا کر وکٹوں کے عقب کی جگہ اپنے نام کر لیتا ہے۔
بطور وکٹ کیپر 1992 کا ورلڈکپ کھیلنے والے معین خان کے ساتھ انہی کے شہر کراچی سے تعلق رکھنے والے راشد لطیف نے ایسا کیا تو وکٹ کیپنگ ان کے نام ہو گئی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پاکستانی ٹیم دو وکٹ کیپرز کے ساتھ میدان میں اترتی تھی، فرق یہ ہوتا تھا کہ راشد لطیف وکٹ کیپنگ کرتے جب کہ معین خان آخری اوورز میں رنز مشین بن جانے کی وجہ سے بلے بازوں کے کوٹے پر گراؤنڈ میں پہنچتے۔
کامران اکمل اپنی بیٹنگ اور وکٹ کیپنگ سکلز کے ساتھ میدانوں میں اترے تو راشد لطیف پیچھے چلے گئے۔ عدنان اکمل گراؤنڈ میں اترے تو بڑے بھائی کامران اکمل کی جگہ لے لی، کچھ ایسا ہی کام ذوالقرنین حیدر نے کیا جو مختصر عرصے کے لیے پاکستان ٹیم میں وکٹوں کے عقب میں دکھائی دیے۔
سابق کپتان سرفراز احمد ٹیم میں آئے تو نہ صرف وکٹوں کا عقب سنبھالا بلکہ متعدد مواقع پر بیٹنگ لائن کو بھی سہارا فراہم کیا۔ ان کی پرفارمنس کے تسلسل میں کچھ کمی آئی تو پشاور سے تعلق رکھنے والے محمد رضوان یکے بعد دیگرے ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی سینچریز کے ساتھ وکٹوں کے عقب میں اپنے پھرتیلے پن کی وجہ سے جگہ پکی کر گئے۔
 

شیئر: