Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سینیٹ انتخابات: ’الیکشن کمیشن 24 گھنٹوں میں جواب داخل کرائے‘

حکومت نے سینیٹ کے انتخابات فروری میں کروانے کا فیصلہ کیا تھا (فوٹو: اے پی پی)
پاکستان کی سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات میں کرپٹ پریکٹس روکنے کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے مزید مشاورت کے ساتھ نئی رپورٹ بدھ کے روز جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔
منگل کو سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن کمیشن ایک آزاد خود مختار اور آئینی ادارہ ہے۔ وہ خاموش تماشائی بن کر نہیں رہ سکتا۔ انتخابی عمل کے دوران جب بھی کچھ غلط ہوگا الیکشن کمیشن کو حرکت میں آنا چاہیے۔‘
سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کروانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت منگل کے روز سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔
اردو نیوز کے نامہ نگار بشیر چوہدری کے مطابق اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’عدالت کے حکم پر چیف الیکشن کمشنر اور دیگر حکام موجود ہیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن بتائے کہ انتخابات میں کرپٹ پریکٹس کیسے روکیں گے؟ الیکشن ایکٹ میں واضح نہیں کیا گیا کہ کسی بھی کرپٹ پریکٹس کو کیسے روکا جائے گا؟
سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’انتخابات سے قبل اور بعد میں سیاسی مداخلت سمیت کرپٹ پریکٹس کے لیے گارڈ کا لفظ ہے۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’کرپٹ پریکٹس کو گارڈ کرنے کا مطلب ہے کہ الیکشن سے پہلے حفاظتی انتظامات کیے جائیں۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’انتخابات میں سیاسی مداخلت اور پیسے کا استعمال ہوتا ہے۔ الیکشن کمیشن میکانزم بتائے کہ کیسے کرپٹ پریکٹس کو روکا جائے؟‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہمیں پوری سکیم بتائی جائے کہ انتخابات کیسے شفاف ہوں گے؟‘
چیف الیکشن کمشنر نے عدالت کو بتایا کہ ’الیکشن کمیشن اپنے اختیارات کے تحت تمام کرپٹ پریکٹسز کو روکتا ہے۔ انتخابات سے پہلے اور بعد میں شکایت پر کارروائی کی جاتی ہے

اوپن بیلٹ سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے کی (فوٹو: سپریم کورٹ)

چیف جسٹس نے کہا کہ ’چیف الیکشن کمشنر صاحب آپ بات کی گہرائی کو سمجھ نہیں رہے۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ’بیلٹ پیپر پر ووٹر کا سیریل نمبر نہیں ہونا چاہیے۔‘
اگر ووٹر کے بارے میں معلوم کرنا بھی ہے تو آئینی ترمیم کی جائے، ہم نے سینیٹ انتخابات سے متعلق بہت غور و خوض کیا ہے۔
سکندر سلطان راجا نے عدالت کو بتایا کہ ’انتخابات سے کرپشن کو ختم کرنے کا طریقہ کار ایکٹ میں موجود ہے۔ الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کو انتخابی عمل میں کرپشن ہر حال میں روکنا ہوگی۔ چیف الیکشن کمشنر صاحب آپ ہمیں کرپٹ پریکٹس روکنے کی سکیم نہیں بتا رہے۔ اتنے عرصے سے کیس چل رہا ہے آپ صرف ایکٹ کے مطابق کام کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔‘
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ’کیا آپ کے اقدامات انتحابی عمل سے کرپشن روک سکتے ہیں؟ کیا آپ کے ابھی تک کیے گئے اقدامات کافی ہیں؟‘
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ’سپریم کورٹ ماضی میں بیلٹ پیپر پر نشان لگانے کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے. قابل شناحت بیلٹ پیپرز کی قانون میں گنجائش نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن ووٹوں کی خرید و فروخت کا نوٹس لے چکا ہے۔ سینیٹ الیکشن کے حوالے سے مبینہ ویڈیو کا جائزہ لینے کے لیے اجلاس بلا لیا ہے۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’2018 کی ویڈیو کا الیکشن کمیشن کو آج پتا چلا؟ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔ کیا الیکشن کمیشن نے کسی سینیٹر کو نااہل کیا؟ کیا گذشتہ انتحابات میں ووٹوں کی خریدو فروخت کی شکایت نہیں تھی۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ’آپ کے نزدیک خفیہ رائے شماری کیا ہوتی ہے؟ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے جواب دیا کہ ’خفیہ ووٹ وہ ہے جس کے ڈالنے والے کا علم نہ ہو۔‘

چیف الیکشن کمشنر نے عدالت کو بتایا کہ ’انتخابات سے کرپشن کو ختم کرنے کا طریقہ کار ایکٹ میں موجود ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن ارکان سے ووٹ نہ خریدنے کا حلف لے سکتا ہے، کیا الیکشن کمیشن نے رشوت دینے پر شکایت درج کرانے کا کہا ہے۔ کیا امیدواروں کو ایک دوسرے کے خلاف شکایت کا موقع دیا گیا؟
اٹارنی جنرل نے شفاف انتخابات کے حوالے سے تجاویز کمیشن کو دے دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ’اٹارنی جنرل کی تجاویز کا جائزہ لیں۔‘ اس موقع پر رضا ربانی نے اعتراض کیا اور کہا کہ ’اٹارنی جنرل کی تجاویز پی ٹی آئی کی تجاویز تصور ہوں گی۔ تمام فریقین کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ وقت کم ہے قانون میں ترمیم نہیں ہو سکتی۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’کسی قانون میں تبدیلی کا نہیں کہہ رہے۔ شفاف الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔ تمام سیاسی لیڈرز سینیٹ الیکشنز میں کرپشن کی بات کرتے ہیں۔‘
’الیکشن کمیشن کو سب معلوم ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ جو ہو گا الیکشن کے بعد دیکھیں گے۔ ووٹوں کی خرید و فروخت الیکشن سے پہلے ہوتی ہے۔‘
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہا کہ ’آپ نے شاید ہمارا کل کا حکم سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ آپ کو معلوم نہیں پاکستان میں الیکشن کیسے ہوتا ہے۔‘
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو بولنے سے روک دیا، چیف جسٹس نے کہا کہ ’چیف الیکشن کمشنر خود جواب دیں گے۔‘
’چیف الیکشن کمشنر صاحب آپ ہمیں کرپٹ پریکٹس روکنے کی سکیم نہیں بتا رہے۔ اتنے عرصے سے کیس چل رہا ہے آپ صرف ایکٹ کے مطابق کام کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔‘
عدالت نے مزید سماعت بدھ تک ملتوی کردی۔

شیئر: