Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گھوڑوں کی تجارت اور سیاست کا تعلق کیوں جوڑا جاتا ہے؟

پاکستان کی سیاست میں بھی ہارس ٹریڈنگ کا رجحان اول روز سے موجود ہے (فوٹو: اے ایف پی)
سیاست میں جب بھی انتخابات، حکومت سازی یا سیاسی جوڑ توڑ کی بات ہوتی ہے تو انگریزی زبان کی اصطلاح ’ہارس ٹریڈنگ‘ یعنی گھوڑوں کی تجارت کا استعمال بہت سننے کو ملتا ہے۔
پاکستان میں تین مارچ کو ہونے والے سینیٹ کے انتخابات کے تناظر میں بھی ہارس ٹریڈنگ کا خوب چرچا ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو ہارس ٹریڈنگ کا الزام دے رہی ہیں۔
حکومت تو ہارس ٹریڈنگ کا راستہ روکنے کے لیے انتخابات اوپن بیلیٹ کے ذریعے کرانے کے جتن کر رہی ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت خود چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے انتخاب اور پھر ان کے خلاف آنے والی تحریک عدم اعتماد میں ہارس ٹریڈنگ میں ملوث رہی ہے۔
ایک عام آدمی جب اس اصطلاح کو سنتا ہے تو اس کو اتنی سمجھ تو آ جاتی ہے کہ کچھ غلط ہو رہا ہے جس کے بارے میں بات کی جا رہی ہے لیکن ہارس ٹریڈنگ کے پس منظر، گھوڑوں کی تجارت کے سیاست سے تعلق اور پاکستانی تناظر میں اس کے استعمال کے بارے میں کم ہی لوگ معلومات رکھتے ہیں۔

ہارس ٹریڈنگ کیا ہے اور کب شروع ہوئی؟

کیمبرج ڈکشنری کے مطابق ’ہارس ٹریڈنگ کا مطلب ہے وہ غیر رسمی بات چیت جس میں دو پارٹیوں کے افراد ایسا اتحاد قائم کرتے ہیں جس میں دونوں کا فائدہ ہوتا ہے۔‘
کولن ڈکشنری کے مطابق ’ہارس ٹریڈنگ غیر سرکاری طور پر ہونے والا وہ خفیہ سمجھوتہ ہے جس سے دونوں فریق یکساں مستفید ہوتے ہیں۔‘
ہارس ٹریڈنگ کا تعلق پہلے واقعی گھوڑوں کی خرید و فروخت کے حوالے سے ہوتا تھا۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ سال 1820 کے آس پاس تاجر اچھی نسل کے گھوڑے خریدنے کے لیے چالاکی اور ہوشیاری سے کام لیتے تھے۔
تجارت کا یہ طریقہ کچھ اس طرح کا تھا کہ کمزور گھوڑوں کی خوبیاں بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی تھیں۔ اس وجہ سے کم قیمت کے گھوڑے مہنگے داموں بیچ دیے جاتے تھے۔

 صادق سنجرانی کے بطور چیئرمین سینیٹ انتخاب اور تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کو اپوزیشن جماعتوں نے گھوڑوں کے کاروبار سے تشبیہہ دی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

1893 میں امریکہ کے مشہور اخبار نیو یارک ٹائم نے پہلی بار یہ اصطلاح سیاسی معنوں میں استعمال کی جس کے بعد ہارس ٹریڈنگ سیاست کا حصہ بن گی۔
اس سے قبل امریکہ کے صدر تھامس جیفرسن نے بھی امریکہ کے کیپیٹل کو تبدیل کرنے کے لیے دو سیاست دانوں کے ووٹ خریدنے کی کوشش کی تھی۔ اس وقت کے سیاستدانوں نے بھی اسے ہارس ٹریڈنگ سے منسوب کیا تھا۔
اس حوالے سے ایک اور واقعہ بھی تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چنگیز خان کی فوج کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ اور اچھے گھوڑے تھے۔ تاتاری دنیا کے پہلے لوگ تھے جو دوڑتے ہوئے گھوڑے پر بیٹھ کر تیر چلا سکتے تھے۔ اس سے پہلے دنیا اس تکنیک سے واقف نہیں تھی۔ چنگیز خان نے وار ٹیکنالوجی میں رفتار اور اس تکنیک کا اضافہ کیا۔
مشہور ہے کہ چنگیز خان جب شمالی چین فتح کرنے کے بعد 1215 میں ترکستان کی طرف بڑھا تو اس وقت کے ترکستان کے حکمران خوارزم شاہ اس تکینک کو سمجھ چکے تھے۔ انھوں نے شمالی چین سے لے کر سمرقند تک راستے کے تمام شہروں اور بستیوں کے تمام گھوڑے خرید لیے۔ جب تاتاری چین سے نکلے تو وہ گھوڑوں کی شدید کمی کا شکار ہو گئے۔
جس کے نتیجے میں تاریخ میں پہلی بار ہارس ٹریڈنگ کی اصلاح سامنے آئی۔ خوارزم شاہ دنیا کا پہلا حکمران تھا جس نے دشمن کو شکست دینے کے لیے ہارس ٹریڈنگ کی تکنیک استعمال کی تھی۔

پاکستان میں ہارس ٹریڈنگ کا رجحان

پاکستان کی سیاست میں بھی ہارس ٹریڈنگ کا رجحان اول روز سے موجود ہے بلکہ تجزیہ کار اور سیاست دان ایاز امیر کے بقول برصغیر میں ہارس ٹریڈنگ تو مغل دور میں بھی موجود تھی اور ان کے زوال کی وجوہات میں سے ایک بنی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق فاطمہ جناح اور ایوب خان کے درمیان ہونے والا صدارتی انتخاب ہو یا 1970 کے عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کا مرحلہ ان میں بھی کہیں نہ کہیں ہارس ٹریڈنگ کا عنصر شامل رہا۔
پاکستان کی تاریخ میں چھانگا مانگا کی سیاست کا تعلق ہی ہارس ٹریڈنگ کے واقعات سے جوڑا جاتا ہے۔ مہران بینک سکینڈل تو ایئرمارشل اصغر خان مرحوم کی تمام تر جدوجہد کے باوجود اپنے منطقی انجام کو نہ پہنچ سکا۔

مہران بینک سکینڈل تو ایئرمارشل اصغر خان مرحوم کی تمام تر جدوجہد کے باوجود اپنے منطقی انجام کو نہ پہنچ سکا۔ (فوٹو: اے پی)

مشرف دور میں پہلے ق لیگ اور بعد ازاں حکومت سازی کے لیے پیٹریاٹ کی تشکیل ہو یا 2018 میں خیبرپختونخوا کے ارکان صوبائی اسمبلی کی جانب سے ووٹ بیچنے کا معاملہ، اس کو بھی ہارس ٹریڈنگ کے زمرے میں لایا جاتا ہے۔
بلوچستان اسمبلی سے صادق سنجرانی اور ان کے گروپ کی کامیابی اور اس کے بعد چیئرمین سینیٹ کے انتخاب اور تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کو تو اپوزیشن جماعتوں نے ایوان کے فلور پر گھوڑوں کے کاروبار سے تشبیہہ دی۔
اردو نیوز سے گفتگو میں تجزیہ کار اور سابق رکن پارلیمنٹ ایاز امیر نے کہا کہ ’پاکستانی سیاست اور پارلیمان کو ملک کے مجموعی مزاج سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ معاشرے کا شعبہ اور طبقہ ہی کرپشن میں ملوث ہے اور اس میں اگر کوئی ایم پی اے پیسے لے کر ووٹ دیتا ہے تو اس پر اتنا ہنگامہ کیوں ہوتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پیسے دے کر پارلیمان کا ممبر بننے کا رجحان تو ایک صدی پہلے تک برطانیہ میں بھی موجود تھا۔ ہارس ٹریڈنگ کا شور بہت مچتا ہے لیکن اس میں ملوث کچھ ہی لوگ ہوتے ہیں۔ سینیٹ انتخابات میں پنجاب میں تو میں خود ایم پی اے رہا ہوں۔ کبھی کسی نے پوچھا تک نہیں کیونکہ 40 سے زائد لوگ مل کر ایک ووٹ بنتا ہے اس لیے کوئی چانس ہی نہیں ہے البتہ اب بلوچستان اور پہلے فاٹا میں بہت پیسہ چلتا تھا۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی (پلڈاٹ) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر احمد بلال محبوب نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا میں جب سے سیاست کا آغاز ہوا ہے تب سے ہارس ٹریڈنگ چلی آ رہی ہے۔ یہ اصطلاح صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے بلکہ جہاں جہاں سیاست ہے وہاں وہاں ہارس ٹریڈنگ موجود ہے۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہارس ٹریڈنگ کا راستہ روکنے کا واحد طریقہ ہے کہ سیاست اور جمہوریت کو آگے بڑھنے دیا جائے (فوٹو: ریڈیو پاکستان)

انھوں نے ہارس ٹریڈنگ کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’سیاست میں بہت سے پیسے خرچ ہوتے ہیں اور آمدن انتہائی محدود ہوتی ہے۔ جب آپ منتخب نہ ہوں پھر بھی سیاست جاری رکھنی ہو تو صرف خرچ کرنا ہوتا ہے۔ وہ پیسے انھی ذرائع سے اکٹھے کیے جاتے ہیں جن میں ایک ہارس ٹریڈنگ بھی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں ہارس ٹریڈنگ کے معاملے کو مخصوص حلقوں کی طرف سے ضرورت سے زیادہ اچھالا جاتا ہے۔ تاکہ سیاست بدنام اور ذلیل ہوتی رہے۔ جب بھی سیاست دانوں کا ’مکو ٹھپنا‘ ہو تو لوگ کہیں یہ تھے ہی اسی لائق۔ کچھ لوگ ہوتے ہیں جو پیسے لیتے بھی ہیں اور دیتے بھی ہیں لیکن اکثریت ایسی نہیں ہے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہارس ٹریڈنگ کا راستہ روکنے کا واحد طریقہ ہے کہ سیاست اور جمہوریت کو آگے بڑھنے دیا جائے تاکہ لوگوں میں شعور پیدا ہو۔ جیسے جیسے شعور بڑھے گا عوام ہارس ٹریڈنگ میں ملوث لوگوں کو انتخابات میں مسترد کرتے جائیں گے۔
اس کے علاوہ ہارس ٹریڈنگ اور کرپٹ پریکٹسزز کا راستہ روکنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک نے بھی اسی طریقہ کار کو اپنایا ہے۔

شیئر: