Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سمندر میں موجود مواصلاتی نظام سے زلزلوں کا پتا لگ سکتا ہے؟

زمین کے مقابلے سمندر کے اندر درجہ حرارت تیزی سے نہیں بدلتا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
دنیا بھر میں زلزلے کی کے انتباہی نظام میں بہتری لانے کے لیے امریکہ کے ایک ادارے میں ماہرین نے ایسا طریقہ نکالا ہے جس سے پانی کے اندر موجود مواصلاتی کیبلز سے زلزلے کا پتہ لگایا جا سکے گا۔
واضح رہے کہ کرہ ارض کے سمندروں کے اندر لاکھوں کلومیٹر لمبی فائبر آپٹک کیبلز کا نیٹ ورک موجود ہے۔ 1980 کی دہائی میں ٹیلی مواصلاتی کمپنیوں اور حکومتوں نے یہ کیبل بچھانا شروع کیے تھے۔ آج یہ عالمی نیٹ ورک بین الاقوامی مواصلات کے لیے بہت اہم مانا جاتا ہے۔
سائے ٹیک ڈیلی نامی ویب سائٹ کے مطابق ایک طویل عرصے سے سائنسدان سمندر میں موجود کیبلز کو زلزلے کا پتا لگانے کے لیے استعمال کرنے کے طریقوں پر تحقیق کر رہے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کرہ ارض کا 70 فیصد سے زائد کا حصہ پانی ہے اور ایسے میں کرہ ارض کی حرکت پانی کے اندر الگ سے زلزلے کا پتا لگانے کا نظام نصب کرنا اور چلانا بے حد مشکل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ محققین کہتے ہیں کہ زلزلے پر نظر رکھنے کے لیے سمندر میں پہلے سے موجود نظام کا استعمال کیا جائے۔
امریکہ میں کیلیفورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں جیوفزکس کے اسسٹنٹ پروفیسر ژونگ وین ژان اور ان کے ساتھیوں نے ایک طریقہ نکالا ہے جس کے تحت سمندر میں موجود فائبر کیبلز سے گزرنے والی لائٹ کا جائزہ لیا جائے گا تاکہ سمندر کی لہروں اور زلزلے کے امکانات پر نظر رکھی جا سکے۔
ژونگ وین ژان کا کہنا ہے کہ اس نئی تکنیک سے فائبر آپٹک کیبلز سے گزرنے والی لائٹ اپنا راستہ تبدیل کر سکتی ہے۔
دوسری جانب زمین کے مقابلے سمندر کے اندر درجہ حرارت تیزی سے نہیں بدلتا۔ لیکن جب زلزلے یا طوفان کی وجہ سے سمندر میں بڑی لہریں بنتی ہیں، اس وقت سمندر کے اندر حرکت محسوس ہوتی ہے جو محقیقین کو اس طرح کی آفات کا پتا لگانے میں مدد دیتی ہے۔

شیئر: