پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ کا تنازعات سے بھرپور انتخاب ایک نئے تنازعے کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے۔ اس نئے تنازعے نے کئی ایک قانونی بحثوں کو بھی جنم دیا ہے۔
جہاں بیلٹ پیپر پر مہر ثبت کرنے کی جگہ کے حوالے سے خاصی بحث ہو رہی ہے وہیں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ آیا پریزائیڈنگ آفیسر کی رولنگ چیلنج بھی ہو سکتی ہے یا نہیں؟ کیا ماضی میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے؟
مزید پڑھیں
-
یوسف رضا گیلانی کے مسترد ووٹوں کا تنازع، قانون کیا کہتا ہے؟Node ID: 548411
-
سینیٹ الیکشن میں شکست، پی ڈی ایم میں اب کس کا بیانیہ چلے گا؟Node ID: 548506
سینیٹ حکام کے مطابق چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں عموماً اتنی بڑی تعداد میں ووٹ مسترد نہیں ہوتے تاہم ماضی میں اس کی ایک مثال موجود ہے۔ سال 1997 میں وسیم سجاد 18 ووٹ مسترد قرار دیے جانے کے باوجود 49 ووٹ لے کر جیت گئے تھے۔ ان کے مد مقابل پیپلزپارٹی کے بیرسٹر مسعود کوثر کو 13 ووٹ ملے تھے۔
اسی انتخاب کے دوران ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے ہمایوں مری ڈپٹی چیئرمین کے امید وار تھے۔ ان کے بھی 18 ووٹ خراب ہو گئے تھے لیکن وسیم سجاد نے یہ 18 ووٹ درست قرار دے دیے تھے۔ وسیم سجاد نے بحیثیت چیئرمین رولنگ دی تھی کہ ووٹرز کی نیت کا پتہ چل رہا تھا کہ وہ کسے ووٹ دینا چاہتے تھے۔
ووٹوں کے مسترد کیے جانے کے معاملے کو چیلنج کیا جا سکتا ہے یا نہیں اس حوالے سے بحث نے جنم اس وقت لیا جب پریزائیڈنگ آفیسر سید مظفر حسین شاہ نے کہا کہ ’اپوزیشن کو اگر میری رولنگ پر اعتراض ہے تو وہ ٹریبیونل میں جا سکتے ہیں۔‘
اس حوالے سے حکومت کی جانب سے سب سے پہلے وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے اعتراض اٹھایا اور کہا کہ آئین کے آرٹیکل 69 کے تحت ایوان میں ہونے والی کسی کارروائی کو کسی بھی عدالت میں چلینج نہیں کیا جا سکتا۔‘
اپوزیشن کے سینیٹر اور قانونی ماہر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’پریزائیڈنگ آفیسر کو کچھ پتہ ہی نہیں تھا۔ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کے لیے کوئی ٹربیونل نہیں ہوتا۔ اس کے لیے میرے خیال کے مطابق ایک رٹ پٹیشن اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر ہوگی۔ اپوزیشن کی جانب سے اس پر مشاورت جاری ہے۔ اب یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ہم ہائی کورٹ جاتے ہیں یا سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔‘

سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’عموماً بیلٹ پیپر کو مسترد کرنے کے لیے بڑی سوچ بچار کرنا پڑتی ہے۔ اگر نام پر مہر لگا دی گئی ہے تو مسترد ہونا بنتا نہیں ہے اگر دائیں بائیں نیچے اوپر لگ جاتی تو ووٹ مسترد ہوجاتا۔ پریزائیڈنگ آفیسر نے خود ہی اپوزیشن کو قانونی جنگ کا راستہ دکھا دیا ہے۔ ابھی پریزائڈنگ آفیسر کی رولنگ سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج ہوسکتی ہے۔‘
سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ ’اس حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ فلور پر جو کچھ بھی ہوا اس سے ایک بات تو واضح ہے کہ ان لوگوں نے بیلٹ پیپر مخصوص جگہ سے ہٹ کر ایک خاص پیٹرن میں ووٹ خراب کیے۔ انہوں نے دراصل کسی کو یہ بتایا ہے کہ ان کے کے کہنے پر وہ ایسا کر رہے ہیں۔ اس سے تو ووٹ کی خفیہ حیثیت بھی ختم ہوگئی اور جس ووٹ کی خفیہ حیثیت ہی ختم ہو جائے اسے مسترد ہی سمجھا جانا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’دوسری بات یہ ہے سینیٹ یا کسی بھی ایوان کی کارروائی کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ جو رولز آف بزنس ہیں آئین کا آرٹیکل 69 ہے اس کے اندر بہت واضح طور پر دیے ہوئے ہیں۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی کارروائی یہ دونوں کسی کورٹ میں چیلنج نہیں کیے جاسکتے۔‘
