Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سپتنک فائیو کی فروخت کی اجازت، قیمت کا تعین نہ ہوسکا

18 مارچ کو ویکسین کی درآمد کے وقت ہی ڈریپ حکام کی جانب سے کہا گیا تھا کہ قیمت کے تعین میں کچھ دن یا کچھ ہفتے بھی لگ سکتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
سندھ ہائی کورٹ نے روس سے درآمد شدہ کورونا وائرس کی ویکسین سپتنک فائیو کی فروخت کی اجازت تو دے دی ہے تاہم ابھی تک اس کی قیمت کا تعین نہیں ہوسکا۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے ویکسین کی قیمت کے تعین کے لیے مزید مہلت مانگی گئی ہے جس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت 12 اپریل تک ملتوی کردی ہے۔
پاکستانی دواساز کمپنی اے جی پی نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد روس سے کورونا وائرس کی ویکسین سپتنک فائیو نجی فروخت کے لیے درآمد کی تھی۔ فراہم کردہ معلومات کے مطابق کمپنی نے ویکسین کے 10 لاکھ ڈوز کا معاہدہ کیا ہے جبکہ 50 ہزار ڈوز پر مبنی پہلی کھیپ گذشتہ ماہ کراچی پہنچی تھی۔
البتہ حکومت کی جانب سے ویکسین کی نجی فروخت کے لیے قیمت کا تعین نہ ہونے کے باعث ڈریپ نے ویکسین کی کھیپ کو کلیئرنس نہیں دی تھی۔
اس حوالے سے اے جی پی نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جہاں پچھلے ہفتے ہی عدالت نے ڈریپ کو ویکسین ریلیز کرنے کے احکام جاری کردیے تھے۔ عدالتی احکامات کے باوجود مبینہ طور پر ویکسین کی ریلیز میں تاخیر پر فارما کمپنی نے ڈریپ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست جمع کروائی تھی جس کی سماعت جمعرات کو ہوئی۔
سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس ندیم اختر کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے درخواست کی سماعت کی جس میں ڈریپ کی جانب سے توہین عدالت کی درخواست پر جواب جمع کروایا گیا جس میں بتایا گیا کہ 31 مارچ کو ویکیسن ریلیز کردی تھی۔
سندھ ہائیکورٹ نے کورونا ویکیسن سپتنک فائیو کی فروخت کی اجازات دے دی اور کہا کہ ویکیسن جتنی جلدی لوگوں کو لگ سکتی ہے لگ جائے۔ ریمارکس میں کہا کہ موجودہ صورتحال میں ویکسینیشن روکنا مناسب نہیں ہے۔
عدالت نے ڈریپ حکام سے استفسار کیا کہ اگر انہوں نے ویکیسن کی ریلیز میں کوئی روکاٹ ڈالی تھی۔ جس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا تھا۔
ڈریپ حکام نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اے جی پی فارما کی جانب سے درآمد کے وقت ویکسین کی قیمت کا تعین نہیں کیا تھا، اور اس حوالے سے پوچھنے پر بھی یہی کہا کہ ابھی پرائس فکس کا معاملہ زیرِ غور ہے۔
سندھ ہائیکورٹ نے واضح کیا کہ عدالت نے ویکیسن کی فروخت کرنے سے نہیں روکا لیکن معاملہ قیمت کے تعین کا ہے۔ اس پر ڈریپ حکام نے عدالت سے ایک ہفتے کی مہلت مانگی۔

حکومت کی جانب سے ویکسین کی نجی فروخت کے لیے قیمت کا تعین نہ ہونے کے باعث ڈریپ نے ویکسین کی کھیپ کو کلیئرنس نہیں دی تھی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

'آئندہ ہفتے تک ویکیسن کی فروخت سے روک دیں ہم پرائس فیکس کردیں گے۔' جس کے جواب میں عدالت نے ریمارکس دیے کہ 'آپ کو تو جلدی کرنی چاہیے کورونا کی تیسری لہر آچکی ہے۔'
اس موقع پر فارما کمپنی کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ کمپنی پرائس ڈیٹا دینے کو تیار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'ایک ملین (10 لاکھ) انجیکشن کا معاہدہ کرلیا تھا 50 ہزار ویکیسن منگوائی جا چکی ہیں۔ معاہدے کے مطابق غیر ملکی کمپنی سے یہ ویکیسن لینی ہے ورنہ بھاری نقصان ہوگا۔'
فارما کمپنی کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کمپنی نے ویکیسن کی قیمت 12 ہزار 226 روپے مقرر کررکھی ہے۔
سندھ ہائیکورٹ نے درخواست کی مزید سماعت 12 اپریل تک ملتوی کردی۔

فارما کمپنی کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کمپنی نے ویکیسن کی قیمت 12 ہزار 226 روپے مقرر کررکھی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

واضح رہے کہ 18 مارچ کو ویکسین کی درآمد کے وقت ہی ڈریپ حکام کی جانب سے کہا گیا تھا کہ قیمت کے تعین میں کچھ دن یا کچھ ہفتے بھی لگ سکتے ہیں۔ بعد ازاں مجاز اتھارٹی کی جانب سے قیمتوں کے تعین سے متعلق سمری بھی بھیجی گئی تھی جو وفاقی کابینہ نے منظور بھی کر لی تھی، جس کے مطابق ویکسین کی دو ڈوز کی قیمت ساڑھے آٹھ ہزار کے لگ بھگ طے کی گئی تھی۔
تاہم فارما کمپنی کی جانب سے مزکورہ قیمت کو ماننے سے انکار کے بعد حکومت نے قیمتوں کے تعین سے متعلق اعلامیہ واپس لے لیا تھا۔ جس کے بعد سے معاملہ تاخیر کا شکار ہے جس کی وجہ سے فارما کمپنی نے عدالت سے رجوع کر رکھا ہے۔

شیئر: