Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا کے پھیلاؤ میں تیزی مگر ویکسینیشن 'سست روی کا شکار'

ماہرین کا خیال ہے کہ ویکسین کے بارے میں علم کی کمی، مشکل طریقہ کار، ویکسین مراکز کی کمی، کورونا کو بیماری نہ سمجھنے والی ذہنیت اس راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں جتنی تیزی سے کورونا پھیل رہا ہے اس کے برعکس ویکسین لگوانے کے لیے رجسٹریشن کا عمل سست روی کا شکار ہے۔ وفاقی حکومت نے اس حوالے سے مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ سندھ حکومت نے ویکیسن نہ لگوانے والے ہیلتھ ورکرز کو نوکریوں سے نکالنے کا اعلان کر دیا ہے۔
پاکستان میں کورونا ویکسین لگوانے کے اہل افراد کی تعداد اگرچہ 10 کروڑ ہے لیکن پہلے مرحلے میں 60 سال کی عمر سے زائد ایک کروڑ 30 لاکھ میں سے صرف آٹھ لاکھ افراد نے ویکسین لگوانے کے لیے رجسٹریشن کروائی ہے۔
دوسری جانب ہیلتھ ورکرز کی جانب سے کورونا ویکسین نہ لگوانے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق ملک بھر میں ویکسین کے لیے 60 سال سے زائد عمر کے آٹھ لاکھ افراد کی رجسٹریشن ہوئی۔ جن میں سے ڈھائی لاکھ افراد کو ویکسین کی پہلی خوراک دی جا چکی ہے۔
این سی او سی کے اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں سب سے زیادہ چار لاکھ 90 ہزار، سندھ میں ایک لاکھ 38 ہزار، خیبرپختونخوا میں 94 ہزار، بلوچستان میں ساڑھے چار ہزار، اسلام آباد میں 42 ہزار، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 20 ہزار اور گلگت بلتستان میں 11 ہزار لوگوں نے رجسٹریشن کرائی ہے۔
سب سے زیادہ پنجاب ہی کے ایک لاکھ 77 ہزار سے زائد معمر شہریوں کو پہلی خوراک جبکہ ایک لاکھ 24 ہزار ہیلتھ ورکرز کو پہلی اور کم و بیش 60 ہزار کو دوسری خوراک لگائی جا چکی ہے۔
دوسرے نمبر پر سندھ ہے جہاں سوا لاکھ سے زائد ہیلتھ ورکرز اور بزرگ شہری ویکسین لگوا چکے ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں بھی کم و بیش 50 ہزار افراد کورونا ویکیسن لگوا چکے ہیں۔

ڈاکٹر نذیر دیشانی نے کہا کہ ’پاکستانی قوم مجموعی طور پر کسی بھی نئی چیز کو تسلیم کرنے میں سست ہے۔۔۔' فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد میں 30 ہزار کے قریب جبکہ بلوچستان میں مجموعی طور پر 17 ہزار افراد کو کورونا ویکسین لگائی گئی۔
بظاہر یہ تعداد کافی نظر آتی ہے لیکن ایک کروڑ 30 لاکھ میں سے 10 لاکھ افراد نے خود کو رجسٹر نہیں کیا جو حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حکومت نے 70 سال سے زائد عمر کے بزرگ شہریوں کے لیے رجسٹریشن کی شرط ختم کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے شناختی کارڈ کے ہمراہ کسی بھی سینٹر پر جا کر ویکسین لگوا سکتے ہیں۔
ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق جمعرات سے 50 سال سے اوپر کے افراد کو ویکسین لگانے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ رجسٹریشن کے عمل کو تیز کرنے کے لیے مزید انتظامات کرنے کے ساتھ ساتھ مہم بھی چلائی جائے گی۔
دوسری جانب صوبہ سندھ کی وزیر صحت  ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے انکشاف کیا ہے کہ سندھ میں خاصی تعداد میں ہیلتھ ورکرز نے ’توہمات‘ اور افواہوں کے باعث کورونا ویکسین نہیں لگوائی۔

ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق ملک بھر میں ویکسین کے لیے 60 سال سے زائد عمر کے آٹھ لاکھ افراد کی رجسٹریشن ہوئی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں ایک لاکھ 42 ہزار 315 رجسٹرڈ ہیلتھ ورکرز ہیں جن میں سے 33 ہزار 556 نے ویکسین لگوانے سے انکار کیا۔ صوبائی وزیر صحت نے آگاہ کیا کہ اگر ان ورکرز نے ویکسین نہ لگوائی تو انہیں نوکری سے برخاست بھی کیا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ این سی او سی کے اعداد و شمار کے مطابق 31 مارچ 2021 تک پاکستان میں 15 ہزار 100 ہیلتھ ورکرز کورونا کا شکار ہوئے ہیں جن میں 145 ہلاک ہوئے۔
اس صورت حال کے باوجود ویکسین کے لیے رجسٹریشن کا عمل سست ہونے اور ویکسین لگوانے سے انکار کیوں ہے؟
اس حوالے سے اردو نیوز نے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے طبی ماہرین سے رابطہ کرکے وجوہات جاننے کی کوشش کی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ویکسین کے بارے میں علم کی کمی، مشکل طریقہ کار، ویکسین مراکز کی کمی، کورونا کو بیماری نہ سمجھنے والی ذہنیت اور دیگر معاشرتی مسائل اس راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ حکومت عوام کی ذہن سازی میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔

ایک کروڑ 30 لاکھ میں سے 10 لاکھ افراد نے بھی خود کو رجسٹر نہیں کیا۔ جو حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر نذیر دیشانی نے کہا کہ ’پاکستانی قوم مجموعی طور پر کسی بھی نئی چیز کو تسلیم کرنے میں سست ہے۔ کورونا کے حوالے سے شرح اموات کم ہونے اور اس تاثر کے باعث کہ یہ مرض دوبارہ لاحق نہیں ہوتا عوام کا ویکسین کی جانب رجحان کم ہے۔ پاکستانی اور تیسری دنیا کے لوگ ویسے بھی ویکسین کے بارے میں مثبت رائے نہیں رکھتے۔‘
ہیلتھ ورکرز کی جانب سے ویکسین لگوانے سے انکار کے واقعات کے بارے میں اہھوں نے کہا کہ ’ڈاکٹرز اور طبی عملہ ویکسین کی تیاری کے عمل سے واقف ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ویکسین کی تیاری کئی مراحل سے نکل کر کامیابی کی صورت میں مارکیٹ میں آتی ہے۔ جو ویکسین اب لگائی جا رہی ہے یہ ہنگامی بنیادوں پر تیار ہوئی ہے وہ اس لیے ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ویکسین کو لے کر عوامی سطح پر ایڈووکیسی یا تشہیر نہیں کی۔ ملک کی بڑی شخصیات کی جانب سے ویکسین لگوانے کے عمل کو بھی مناسب انداز میں مشتہر نہ کیے جانے کی وجہ سے ویکسین کے لیے عوام میں اعتماد حاصل نہیں کیا جا سکا۔‘

ڈاکٹر محمد اسرار نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’لوگوں کو ویکسین لگوانے کے لیے رضا مند کرنے کے لیے انہیں سہولیات فراہم کرنا ہوں گی۔' فائل فوٹو: اے ایف پی

معروف نیوٹریشن ڈاکٹر محمد اسرار نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’لوگوں کو ویکسین لگوانے کے لیے رضا مند کرنے کے لیے انہیں سہولیات فراہم کرنا ہوں گی۔ اگر ہم چاہیں کہ لوگ خود چھٹی کرکے، اپنی ٹرانسپورٹ استعمال کرکے دور دراز ویکیسنیشن سینیٹر پر آئیں تو ان میں اکثریت نہیں آئیں گے۔ آسان، دروازے پر یا کم از کم محلے کے اندر دستیابی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو گھر گھر جا کر باہر نکالنا پڑے گا۔ پھر شاید کچھ لوگ ویکسین لے کر نکلیں گے۔‘
ان کے مطابق ’ویکسین کے بارے میں شکوک و شبہات اس طرح سے نہیں ہیں جس طرح سے سمجھا جا رہا ہے۔ ایسی افواہیں بڑی تعداد کی سوچ کو متاثر نہیں کرتیں۔ کسی دوسری ویکسین کا انتظار بھی شاید ایک دو فیصد لوگوں کو ہی ہوگا۔ ویکسین میں دلچسپی نہ لینے کی وجہ پیچیدہ عمل اور کم دستیابی ہے۔ ویکیسین سینٹر بڑھانے سے کچھ بہتری کے امکانات ہیں۔‘

شیئر: