Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی آئی اے کی برطانیہ کے لیے مزید پروازوں کا اعلان

پی آئی اے نے 8 اپریل تک پاکستان سے برطانیہ کے لیے مزید پروازیں بھجوانے کے اعلان کیا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی جانب سے 8 اپریل تک برطانیہ کے لیے مزید پروازیں بھجوانے کے اعلان کو مسافروں نے خوش آئند قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ ’تمام خواہش مند افراد کو ٹکٹس مل جائیں گے۔‘
پی آئی اے نے ریڈ لسٹ کی پابندیاں شروع ہونے سے پہلے برطانیہ جانے والے افراد کی طلب کو مد نظر رکھتے ہوئے مزید تین پروازیں شیڈول کی ہیں جبکہ دو مزید پروازوں کے لیے اجازت بھی طلب کر لی ہے۔ 
ترجمان پی آئی اے کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق ان پروازوں کے شیڈول ہونے سے پی آئی اے کی 8 اپریل سے پہلے کل اضافی پروازوں کی تعداد 5 ہو جائے گی. نئی پروازیں 7 اور 8 اپریل کو مانچسٹر اور 8 اپریل کو لندن کے لیے روانہ ہوں گی۔
توقع کی جا رہی ہے کہ نئی پروازوں سے مسافروں کی طلب پوری کرلی جائے گی۔ سی ای او پی آئی اے کی خصوصی ہدایات پر لوگوں کی سہولت کے لیے پی آئی اے کے بکنگ دفاتر 24 گھنٹے کھلے رہیں گے۔
دو اپریل کو برطانیہ کی جانب سے پاکستان کو ریڈ لسٹ میں شامل کر کے 9 اپریل کے بعد برطانیہ پہنچنے والے مسافروں کو حکومت کے مقرر کردہ ہوٹلوں میں اپنے خرچ پر قرنطینہ کی پابندی عائد کر دی گئی۔ 
اس کے بعد پاکستان آئے ہوئے وہ شہری جن کے پاس برطانوی شہریت ہے یا وہاں رہائش کے حقوق ہیں 9 اپریل سے پہلے برطانیہ پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 
خیال رہے کہ برطانیہ نے کورونا وبا کے باعث چند ایک شعبہ جات کے علاوہ باقی شہریوں پر چھٹیاں گزارنے کے لیے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کر رکھی ہے تاہم مجبوری بتانے اور اس کا ثبوت فراہم کرنے پر اجازت مل سکتی ہے۔
برطانیہ میں مقیم ہزاروں افراد کسی نہ کسی وجہ سے لاک ڈاؤن کی پابندیوں کے باعث کام کاج نہ ہونے اور ایسٹر کی چھٹیوں کے باعث پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ 
اب ان میں سے اکثریت 8 اپریل تک برطانیہ واپس جانا چاہتی ہے لیکن اچانک پابندی اور قطر ایئر لائن کی ریڈ لسٹ میں شمولیت کے بعد دیگر ایئر لائنز بالخصوص پی آئی اے پر بوجھ بڑھ جانے سے ٹکٹ ہی دستیاب نہیں ہو رہے۔ 
ٹریول ایجنٹ امتیاز احمد نے بتایا کہ ’گذشتہ ایک سال سے ٹکٹنگ کا کاروبار ویسے ہی ماند ہے۔ ایئر لائنز حکومتی فیصلوں کے بعد ٹکٹ ہولڈ کرکے ریٹ بڑھا دیتی ہیں۔ ایسے میں سسٹم میں تلاش کرنے پر بھی ٹکٹ دستیاب نہیں ہوتے۔‘
’میرے پاس اس وقت بھی دو ایسے مسافر بیٹھے ہیں جو یک طرفہ ٹکٹ کا 600 پاؤنڈ دینے کو تیار ہیں لیکن سسٹم میں ٹکٹ دستیاب نہیں ہے۔‘

اچانک پابندی کے بعد دیگر ایئر لائنز پر بوجھ بڑھ جانے سے ٹکٹ ہی دستیاب نہیں ہو رہے۔ فائل فوٹو: روئٹرز

انہوں نے کہا کہ ویسے ہی جب بھی ہنگامی صورت حال بنتی ہے پی آئی اے ایجنٹس کو ٹکٹ دینے کے بجائے خود بیچتی ہے۔ ایسے میں مسافر خوار ہوتے ہیں کہ ٹکٹ کہاں سے لیں۔ کچھ بڑے ٹریول ایجنٹس کے پاس مختلف ائیر لائنز کے ٹکٹوں کی ایڈوانس بکنگ ہوتی ہے اور وہ بھی منافع کماتے ہیں تاہم ان تک سب کی رسائی نہیں ہوتی اس لیے زیادہ تر مسافر مشکلات کا شکار ہوتے ہیں اور اب بھی وہ پریشانی میں ہیں۔ 
زاہد محمود کا تعلق ضلع جہلم سے ہے اور وہ مانچسٹر میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کے بچوں کی پیدائش بھی برطانیہ میں ہوئی۔ کورونا کی دوسری لہر میں کمی واقع ہوئی تو انہوں نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے پاکستان آ کر اپنے والدین کے ساتھ بچوں کا عقیقہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ 
انہوں نے اب 12 اپریل کو برطانیہ واپس جانا تھا کہ اچانک برطانوی حکومت نے قرنطینہ ہوٹل بکنگ کے لیے دو ہزار پاؤنڈ فی کس مانگ لیے ہیں۔ 
اردو نیوز سے گفتگو میں زاہد محمود نے کہا کہ 'ایک عام ورکر کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ میاں بیوی اور تین بچوں کے قرنطینہ کے لیے 8 سے دس ہزار پاونڈ اور پھر قرنطینہ کے دوران اپنے کھانے پینے کے اخراجات برداشت کرے۔' 

قطر ایئرلائن کی ریڈلسٹ میں شمولیت کے بعد بھی پی آئی اے پی بوجھ بڑھ گیا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے کہا کہ 'جب پاکستان آنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ایک بار جمع پونجی لے کر آتے ہیں کہ جتنے دن پاکستان میں رہیں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔ جب واپسی کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ اب پیسے ختم ہو رہے ہیں۔ اس صورت حال میں اگر ہزاروں پاؤنڈز کا خرچہ کرنا پڑ جائے تو قرض اٹھانے اور اگلا سال اسے اتارنے میں لگانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔' 
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 'ٹکٹ آگے کرنے کا سوچا تھا لیکن میں ریسٹورنٹ پر کام کرتا ہوں جن کے کھلنے کا امکان ہے بلکہ کھل رہے ہیں اور میری اہلیہ سائیکالوجسٹ ہیں اور اب ان کی چھٹیاں بھی ختم ہوگئی ہیں۔ اب ہمارے پاس نوکریاں ختم کرانے یا قرض اٹھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ ہم نے 9 اپریل سے پہلے کے ٹکٹ لینے کی کوشش کرکے بھی دیکھ لیا ہے لیکن کسی بھی ائیر لائن کے ذریعے کامیابی نہیں ہوئی۔' 
انہوں نے کہا کہ 'پی آئی اے کا اعلان سنا ہے۔ امید ہے کہ اب ٹکٹ بھی مل جائیں گے اور ہمارے وہ ٹکٹ جو 12 اپریل کے تھے ان کو 8 اپریل سے پہلے کسی پرواز میں ایڈجسٹ کر دیا جائے گا۔'
مونا رسول کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور وہ اپنے بیٹے کے ساتھ لندن میں رہتی ہیں۔ اپنے بیمار والدین کو دیکھنے اور ان کی بیمار پرسی کے لیے وہ دو ہفتے کے لیے دو اپریل کی صبح اسلام آباد پہنچیں اور یہاں پہنچ کر انہیں ریڈلسٹ کی خبر سننے کو ملی۔

برطانیہ سے پاکستان آنے والوں میں سے اکثریت 8 اپریل تک برطانیہ واپس جانا چاہتی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

اردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ 'میں مجبوری میں حکومت سے اجازت لے کر اور تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد پاکستان آئی۔ میں نے قطر ائیر لائن کا ٹکٹ لیا تھا اور ان کی نامزد کردہ لیبارٹری سے پی سی آر ٹیسٹ کرایا۔ روانگی سے دو دن پہلے قطر ایئر لائن کے ریڈ لسٹ میں جانے کے باعث ترکش ایئر لائن کا ٹکٹ لیا اور نیا ٹیسٹ کرایا۔ اس طرح مجھے دو دفعہ ٹیسٹ کرانے کے پیسے دینا پڑے۔' 
انہوں نے کہا کہ 'میں ایک پری سکول میں پڑھاتی ہوں اور اتنے وسائل نہیں ہیں کہ ہوٹل قرنطینہ کے اخراجات برداشت کر سکوں۔ اس کے ساتھ ساتھ مجھے بحیثیت شہری حکومت کے منتخب ہوٹلوں پر سو فیصد اطمینان بھی نہیں ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ میری ملازمت کا تقاضا ہے کہ میں پاکستان سے واپس پہنچنے پر خود کو قرنطینہ کروں اس لیے مجھے سرکاری قرنطینہ کے اخراجات ادا کرنے کے لیے پابند کرنا بھی مناسب نہیں۔' 
انہوں نے کہا کہ 'پاکستانی وزارت خارجہ کو پاکستان کو ریڈ لسٹ میں شامل کرنے کا معاملہ برطانیہ کے ساتھ اٹھانا چاہیے کیونکہ کئی ممالک میں پاکستان سے کہیں زیادہ کیسز ہیں۔ اس کے باوجود وہ ریڈ لسٹ میں شامل نہیں ہیں۔'

پی آئی اے کی جانب سے مزید پروازوں کے اعلان کے بعد رمیز احمد نے امید ظاہر کی ہے کہ اب شاید وہ ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ فائل فوٹو: روئٹرز

رمیز احمد کا تعلق گجرات سے ہے اور وہ برطانیہ میں کورونا کی شدت دیکھتے ہوئے بیوی بچوں کو لے کر پاکستان آگئے تھے۔ انہوں نے بھی اپریل کے آخر میں واپس جانے کا ارادہ کر رکھا تھا۔ 
اردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ 'چار دن سے نہ صرف گجرات بلکہ گوجرانوالہ، لاہور اور راولپنڈی تک تمام ٹریول ایجنسیوں اور آن لائن ٹکٹوں کی ویب سائٹس کھنگالنے کے باوجود ٹکٹ نہیں مل رہے۔ نہیں چاہتے کہ پانچ، چھ افراد کے قرنطینہ اخراجات ادا کریں۔ اس لیے کوشش ہے کہ 9 اپریل سے پہلے پہلے واپس جا سکیں.' 
پی آئی اے کی جانب سے مزید پروازوں کے اعلان کے بعد انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ اب شاید وہ ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور اضافی خرچ سے بچ جائیں۔ 

شیئر: