Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ڈی پورٹ ہونے کا خوف‘، سپین کی جیلوں میں قید پاکستانی شناخت ظاہر کرنے سے گریزاں

کئی پاکستانی شہری بین الاقوامی ڈرگ ٹریفکنگ کے الزامات میں طویل سزائیں کاٹ رہے ہیں (فائل فوٹو: سپین پولیس)
یورپی ملک سپین کے مختلف شہروں میں قید پاکستانی شہریوں کو اپنی شناخت ظاہر کرنے سے گریز کرنے کی وجہ سے قونصلر اور قانونی معاونت فراہم کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
اردو نیوز کو دستیاب وزارت خارجہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سپین میں سینکڑوں پاکستانی شہری جیلوں میں قید ہیں تاہم ان تک رسائی اس وجہ سے ممکن نہیں ہے کہ مقامی قوانین کے مطابق گرفتار شخص کی مرضی کے بغیر اس کے بارے میں معلومات متعلقہ ملک کے سفارت خانے کو فراہم نہیں کی جا سکتیں۔ 
رپورٹ کے مطابق صرف کیتالونیا کی جیلوں میں 92 پاکستانی شہری مختلف مقدمات میں قید ہیں، لیکن ان میں سے صرف 56 قیدی ایسے ہیں جنہوں نے اپنی شناخت ظاہر کر کے سفارت خانے سے رابطے کی اجازت دی۔
دیگر قیدی ملک بدری یا ’ڈیپورٹیشن‘ کے خوف کے باعث اپنی شناخت چھپائے ہوئے ہیں۔ 
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انسانی حقوق کے قوانین، خصوصاً ’آرگینک لا 5/1999‘ اور ’آرگینک لا 3/2018‘ کے تحت، کسی بھی قیدی کے ذاتی ڈیٹا کو اس کی مرضی کے بغیر افشا کرنے کی ممانعت ہے جبکہ یورپی یونین کے قوانین اور ’یورپی کنونشن برائے انسانی حقوق‘ میں قیدیوں کی ذاتی معلومات اور شناخت کے تحفظ کو بنیادی انسانی حق قرار دیا گیا ہے۔ یہ قانونی فریم ورک اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہر قیدی اپنی شناخت ظاہر کرنے یا نہ کرنے کا حق خود رکھتا ہے۔
تاہم اس کے نتیجے میں قونصلر ادارے اپنی محدود معلومات کی بنیاد پر قیدیوں کی مدد فراہم کرنے پر مجبور رہتے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ جن پاکستانی شہریوں نے سفارت خانے سے رابطہ کرنے اور اپنی شناخت ظاہر کرنے پر رضامندی دی ہے، وہ زیادہ تر سنگین جرائم میں ملوث ہیں۔
سفارت خانے کے ریکارڈ کے مطابق ان 56 قیدیوں میں سب سے بڑی تعداد منشیات کی سمگلنگ کے مقدمات میں گرفتار افراد کی ہے۔
کئی پاکستانی شہری بین الاقوامی ڈرگ ٹریفکنگ کے الزامات میں طویل سزائیں کاٹ رہے ہیں جبکہ دیگر سنگین جرائم میں قتل کی کوشش، گھریلو تشدد، جنسی جرائم اور پرتشدد حملے شامل ہیں۔
اس کے علاوہ مالی دھوکہ دہی اور سٹریٹ کرائم میں ملوث ایک محدود تعداد بھی سفارت خانے کے علم میں ہے۔ 
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اکثر سنگین جرائم کے ملزمان قانونی اور قونصلر رابطے کے لیے زیادہ تیار ہوتے ہیں جبکہ معمولی نوعیت کے یا قابلِ ضمانت مقدمات میں ملوث پاکستانی شہری خوف کے باعث اپنی شناخت چھپائے رکھتے ہیں۔

مالی دھوکہ دہی اور سٹریٹ کرائمز میں ملوث ایک محدود تعداد سفارت خانے کے علم میں ہے (فائل فوٹو: ویکیمیڈیا کامنز)

 اس حوالے سے میڈرڈ میں پاکستانی سفارت خانے کا موقف ہے کہ سپین میں معمولی نوعیت کے جرائم یا قابلِ ضمانت الزامات پر گرفتاریوں کی صورت میں پاکستان حکومت کو عام طور پر آگاہ نہیں کیا جاتا۔
یہ اطلاع صرف اسی صورت میں فراہم کی جاتی ہے جب قیدی تحریری طور پر اپنی اجازت دے۔
اس پالیسی کے باعث سینکڑوں پاکستانی شہری جیلوں میں قید ہونے کے باوجود اپنی شناخت خفیہ رکھے ہوئے ہیں اور اس کے نتیجے میں نہ صرف انہیں قانونی مشورے اور قونصلر خدمات حاصل کرنے میں دشواری پیش آ رہی ہے بلکہ ان کے مقدمات میں مناسب دفاع کے امکانات بھی محدود ہو گئے ہیں۔
پاکستانی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ وہ پولیس، جیل انتظامیہ اور قانونی فورمز کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں تاکہ قیدیوں کو قونصلر معاونت فراہم کی جا سکے مگر جب تک قیدی خود اپنی شہریت ظاہر نہیں کرتے، سفارت خانہ نہ تو قانونی مدد فراہم کر سکتا ہے اور نہ ہی مقدمات کی تفصیلات حاصل کر سکتا ہے۔ 
اس بحران کے سماجی اور نفسیاتی پہلو بھی اہم ہیں۔

پاکستانی قیدیوں کو قانونی مشورے اور قونصلر خدمات حاصل کرنے میں دشواری پیش آ رہی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

بیرونِ ملک مقیم پاکستانی کمیونٹی کے نمائندے اس مسئلے پر حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بیرونِ ملک مقیم مزدوروں، غیرقانونی تارکینِ وطن اور ایسے شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے خصوصی مہم چلائے۔
ماہرین کے مطابق اس بحران کا حل صرف قانونی اور سفارتی اقدامات تک محدود نہیں بلکہ ایک جامع معلوماتی مہم کی ضرورت ہے جس میں پاکستانی شہریوں کو یقین دلایا جائے کہ سفارت خانے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ان کے تحفظ کے لیے موجود ہیں۔
اس کے علاوہ ایسے افراد کی قانونی معاونت کے لیے ہنگامی خدمات، وکیل تقرر اور سفارتی رابطے کو مزید مؤثر بنانا بھی ضروری ہے تاکہ خوف کے باعث شہری اپنی شناخت چھپانے پر مجبور نہ ہوں۔
یہ صورتحال نہ صرف انسانی حقوق کے اعتبار سے اہم ہے بلکہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی سماجی اور معاشی زندگی پر بھی براہِ راست اثر ڈالتی ہے کیونکہ شناخت چھپانے والے قیدی اپنے خاندان اور برادری کے ساتھ بھی محدود رابطہ رکھنے پر مجبور رہتے ہیں۔

شیئر: