اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) سے عوامی نیشنل پارٹی کے الگ ہونے کے بعد یہ اتحاد کمزور تو ہوگیا ہے تاہم اتحاد کی بقا کا فیصلہ اب سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں ہے۔
گو اس حوالے سے حتمی فیصلہ تو 11 اپریل کو پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ (سی ای سی )کے اجلاس میں ہوگا تاہم بدھ کو پیپلز پارٹی کے دو ترجمانوں کے مسلم لیگ ن کے خلاف سخت بیانات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پی ڈی ایم اتحاد برقرار رہا بھی تو دونوں بڑی جماعتوں میں تناؤ کا ماحول برقرار رہے گا۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کا اہم اجلاس اتوار کو بلاول ہاﺅس کراچی میں طلب کر رکھا ہے۔
مزید پڑھیں
-
کیا مریم نواز واقعی ملک سے باہر جانا چاہتی ہیں؟Node ID: 554931
-
کیا جہانگیر ترین پیپلز پارٹی میں شامل ہونے جارہے ہیں؟Node ID: 555026
پاکستان پیپلزپارٹی کے سیکریٹری جنرل سید نیئر حسین بخاری کے مطابق ’کورونا کے باعث جو اراکین شرکت نہیں کرسکتے وہ ویڈیولنک کے ذریعے شریک ہوں گے۔‘
اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کی سیکریٹری اطلاعات شازیہ عطا مری نے کہا کہ ’مسلم لیگ ن نے جے یو آئی سے مل کر اپنے ذاتی مفادات کے لیے پی ڈی ایم میں پھوٹ ڈالی۔‘
ان کے مطابق ’مولانا فضل الرحمان کہہ چکے ہیں کہ اگر پی پی پی استعفے نہیں دیتی تو جے یو آئی اور ن لیگ مل کر استعفے دیں گے۔‘
انہوں نے سوال کیا کہ مسلم لیگ ن اور جے یو آئی واضح کریں کہ وہ کب اسمبلیوں سے مستعفی ہو رہے ہیں اور لاڑکانہ میں جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے اتحاد پر شوکاز نوٹس کب جاری ہوگا؟
پاکستان پیپلزپارٹی کے سیکریٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی نے بدھ کو ہی اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’مسلم لیگ ن نے پی ٹی آئی میں انتشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عمران خان کی حکومت گرانے کے بجائے اسے بچانے کو ترجیح دی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مسلم لیگ ن نے جان بوجھ کر استعفوں کا شوشہ چھوڑا تاکہ پی ڈی ایم میں پھوٹ پڑے اور پی ٹی آئی حکومت بچ جائے۔‘
فیصل کریم کنڈی نے سوال کیا کہ لندن میں بیٹھ کر پیپلز پارٹی پر ڈیل کے الزامات لگانے والے بتائیں کہ ن لیگ نے کس ڈیل کے بعد پی ڈی ایم میں پھوٹ ڈالنے کی سازش تیار کی؟

کیا پاکستان پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کا حصہ رہے گی؟
پارٹی کے رہنماؤں کے سخت بیانات کے بعد عام تاثر یہ ہے کہ شاید پاکستان پیپلز پارٹی اب پی ڈی ایم کا حصہ نہیں رہے گی اور اپوزیشن بڑی تقسیم کا شکار ہو جائے گی۔ تاہم اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سیاسی امور کے مبصرین نے اس تاثر سے اتفاق نہیں کیا۔
سینیئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ان کے خیال میں یہ نوبت نہیں آئے گی کہ پیپلز پارٹی اپوزیشن اتحاد سے نکل جائے۔‘
’ان کے خیال میں مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کو بھی اب یہ احساس ہوگیا ہوگا کہ اتحاد اس طرح سے نہیں چل سکتا اور وہ اب مفاہمتی رویہ اختیار کریں گے۔‘
سہیل وڑائچ کے مطابق ’پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی احساس ہے کہ وہ پی ڈی ایم کا حصہ رہ کر بہتر کردار ادا کر سکتی ہے۔‘
اس سوال پر کہ کیا پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کی جماعتیں علیحدہ رہ کر بھی موثر اپوزیشن کا کردار ادا کر سکتی ہیں؟ سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’وہ نہیں سمجھتے کہ علیحدہ رہ کر یہ جماعتیں کچھ کر سکیں گی بلکہ اس کا بہت زیادہ فائدہ حکومت کو ہوگا۔‘
