Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’نو منتخب ایرانی صدر کے سخت گیر خیالات سے مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں‘

ابراہیم رئیسی کے خیالات سپریم لیڈر کے ساتھ مکمل مطابقت رکھتے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کے قریبی معتمد ابراہیم رئیسی بطور صدر مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات بحال کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں تاہم ان کے سخت گیر خیالات کے باعث مسائل بھی پیدا ہونے کے امکانات ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایران کے نو منتخب صدر کو ملکی معیشت میں بہتری لانے کے حوالے سے دباؤ کا سامنا ہے جس کے باعث وہ 2015 کے جوہری معاہدے میں امریکہ کی واپسی کے لیے یورپی یونین کی کوششوں میں رکاوٹ نہیں ڈالیں گے۔
تاہم تجزیہ کاروں نے اس خیال کا بھی اظہار کیا ہے کہ ابراہیم رئیسی کی امریکہ کے لیے نفرت مغربی مطالبات پورے کرنے میں رکاوٹ کا باعث بن سکتی ہیں، جن میں ایران کا بیلسٹک میزائل پروگرام، ہمسایہ ممالک میں مداخلت اور مغربی ممالک کے شہریوں کی حراست سے متعلق معاملات شامل ہیں۔
برطانوی تھنک ٹینک ’چیٹم ہاؤس‘ میں ریسرچر صنم وکیل کا کہنا ہے کہ خامنہ ای کی طرح ابراہیم رئیسی کو بھی ایران سے متعلق مغربی ممالک کے ارادوں پر شکوک و شہبات ہیں جس کے باعث وہ ان ممالک کے ساتھ تعلقات میں احتیاط برتیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ رویہ مستقبل میں امریکی مخالفت، معاشی قوم پرستی اور اندرونی جبر کے حوالے سے خبردار  کرتا ہے جبکہ اس دوران حقیقت پسندی پر مبنی اقدامات بھی دیکھنے کو ملیں گے۔‘
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے تجزیہ کار علی واعظ اور نیسان رفعتی نے ایرانی انتخابات سے متعلق لکھا تھا کہ متحد حکومتی ڈھانچہ اندرونی لڑائی جھگڑوں سے کم سے کم متاثر ہوگا، جو صدر حسن روحانی کے ایجنڈے میں رکاوٹ کا باعث بنے رہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ابراہیم رئیسی آیت اللہ خامنہ ای کے دور کے پہلے صدر ہوں گے جن کے خیالات سپریم لیڈر سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں۔
ابراہیم رئیسی سے پہلے آیت اللہ خامنہ ای کے تحت چار ایرانی صدور کام کر چکے ہیں جو سپریم لیڈر کے ساتھ مکمل اتفاق رائے نہیں رکھتے تھے۔

ابراہیم رئیسی پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سابق صدر ہاشمی رفسنجانی (1989-1997) سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے سیاسی حریف تھے، محمد خاتمی (1997-2005) اصلاح پسند تھے، احمدی نژاد (2005-2013) کے اپنے دوسرے دورے حکومت میں سپریم لیڈر کے ساتھ اختلافات پیدا ہو گئے تھے، جبکہ صدر حسن روحانی مغرب کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہش مند تھے۔
ابراہیم رئیسی کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر امریکی حکومت نے صدارتی حکمنامے کے تحت نومبر 2019 میں ان پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
تجزیہ کار علی رضا نے ابراہیم رئیسی کے امریکہ سے تعلق کی مناسبت سے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ’جوہری معاہدے کی بحالی کی حمایت کے باوجود  آئندہ سالوں  میں ایران اور مغرب کے درمیان ہونے والے مذاکرات پیچیدگی کا شکار ہو سکتے ہیں۔‘
جوہری معاہدے سے متعلق ویانا میں ہونے والے مذاکرات پر پیش رفت کے بعد گمان کیا جا رہا ہے کہ ابراہیم رئیسی کے صدارتی عہدہ سنبھالنے سے پہلے معاہدہ ہو سکتا ہے۔
ویانا کی ایک کنسلٹنگ فرم کے عہدیدار بیجن خاجے پور کے مطابق ایران پر لگائی گئی پابندیوں کا ہٹانا پڑے گا، اسی لیے ابراہیم رئیسی اور ایرانی پاسدارن انقلاب کے لیے جوہری معاہدے (جے سی پی او اے) پر عمل درآمد ضروری ہے۔

ابراہیم رئیسی کا شمار ایرانی سپریم لیڈر کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم اس موقع پر ایک نیا جوہری معاہدہ ممکن ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا جس میں وسیع پیمانے پر تمام مسائل سے نمٹا گیا ہو۔
امریکی تھنک ٹینک بروکنگ انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر خارجہ پالیسی سوزین مالونی کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں طویل مدتی اور مضبوط معاہدے کے لیے سنجیدہ بات چیت کا امکان نہیں ہے۔

شیئر: