Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اچھا سکرپٹ نہ ہو تو اچھی اداکاری بھی ممکن نہیں: ثانیہ سعید

ثانیہ سعید کہتی ہیں کہ الگ الگ نقطہ نظر اور نظریات کے لیے اداکاروں کو اپنا دل دماغ کھلا رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے (فوٹو: ٹوئٹر)
ثانیہ سعید کا شمار پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی منجھی ہوئی اداکاراؤں میں ہوتا ہے جو اپنی بہترین ڈائیلاگ ڈیلیوری اور چہرے کے تاثرات سے کسی بھی کردار میں جان ڈال دیتی ہیں۔ 
ثانیہ سعید بہت زیادہ ٹی وی سکرین پر نظر نہیں آتیں لیکن کسی بھی ٹی وی ڈرامے میں ان کا ہونا اس بات کی دلیل سمجھا جاتا ہے کہ اس ڈرامے کی کہانی ضرور مضبوط ہوگی۔ 
حال ہی میں ثانیہ سعید ہم ٹی وی کے ڈرامہ سیریل ’رقیب سے‘ میں نظر آئیں جس کی کہانی اپنی نوعیت کی منفرد کہانی تھی۔ اس ڈرامے میں ثانیہ سعید نے ہاجرہ کا کردار نبھایا جو ایک ایسی بیوی کا تھا جو اپنے شوہر کی سابقہ محبوبہ کے لیے حسد یا منفی جذبات رکھے بغیر اس کی مدد کرتی ہے۔
اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں ثانیہ سعید نے کہا کہ ’میں اچھی اداکاری کر سکتی ہوں میرے اچھے تجربات ہو سکتے ہیں لیکن اچھا سکرپٹ ہی نہیں تو میں کچھ نہیں کرسکتی نہ ہی کچھ الگ کر سکتی ہوں ،ڈرامہ سیریل رقیب سے کی مثال لے لیں اور اس ڈرامے میں ہدایت کار نے بھی اداکاروں سے بہت ہی عمدہ کام لیا ہے۔‘ 
ثانیہ سعید کے بقول ’ہدایتکاری ایک ایسا کام ہے جو سمجھنا آسان نہیں ایک ایکٹر نہیں سمجھ سکتا کہ ڈائریکٹر کس نظریے سے کس کردار اور اس کی زندگی کو دیکھتا ہے وہ کس ڈھنگ سے کہانی سنانا چاہتا ہے۔ کوئی بھی اداکار اچھی اداکاری کرتا ہے اس کی آنکھیں بولتی ہیں اگر ڈائریکٹر ان کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہی نہیں کر رہا تو اکیلا اداکار کیا کر سکتا ہے؟‘

ثانیہ سعید کا کہنا ہے کہ ڈرامہ سیریل ’رقیب سے‘ میں ہدایت کار نے اداکاروں سے بہت ہی عمدہ کام لیا ہے (فوٹو: سکرین گریب)

ثانیہ سعید شوبز انڈسٹری کا وہ ستارہ ہیں جو تھیٹر کی دنیا میں فن اداکاری کے افق بھی بھی خوب چمکا،اس حوالے سے ثانیہ سعید نے بتایا کہ ’کسی بھی اداکار نے اگر تھیٹرکیا ہو تو اسے فائدہ ضرور ہوتا ہے لیکن اگر نہیں بھی کیا توکوئی بات نہیں دنیا میں بہت سارے اداکار ایسے ہیں جنہوں نے تھیٹر کبھی کیا ہی نہیں لیکن اس کے باوجود وہ بہت بہترین اداکار ثابت ہوئے ہیں۔‘ 
نئے فنکاروں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’آج کل کے اداکاروں کی اداکاری کو بہت پسند کرتی ہوں حالانکہ ہم ان کو اچھے سکرپٹس نہیں دے رہے اس کے باوجود وہ کمال کیسے دکھا رہے ہیں میں حیران ہوتی ہوں۔‘
ثانیہ کے مطابق انہیں اچھے سکرپٹ اور اچھے ڈائریکٹرز نے تربیت دی ہے ’لیکن آج نوجوان اداکاروں کو جو سکرپٹ دیے جارہے ہیں ان میں بعض اوقات  فضول سی باتوں کو ڈسکس کیا جا رہا ہوتا ہے اس کے باجود اگر وہ اداکار ناظرین کو بیٹھ کر ڈرامہ دیکھنے پر مجبور کر رہے ہیں تو یہ ان کا کمال ہے باقی ہمیں ہر صورت رائٹرز بدلنے کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگرچہ زیادہ تر سکرپٹ اچھے نہیں آرہے لیکن اس کے باوجود اسی دور میں ’رقیب سے‘ اور ’میری گڑیا‘ جیسے ڈرامے دیکھنے کو بھی مل رہا ہے۔‘ 
ایک سوال کے جواب میں ثانیہ نے کہا کہ اگر دیکھنے والے کو کسی بھی اداکار کی اداکاری اور ڈائیلاگ ڈلیوری میں ٹھہراؤ اور چہرے پر طمانیت نظر آئے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی پریکٹس اور تجربہ بہت زیادہ ہے۔‘
 

ثانیہ سعید نے کہا کہ آج کل کے اداکاروں کو اچھے سکرپٹس نہیں مل رہے اس کے باوجود وہ کمال دکھا رہے ہیں (فوٹو: ثانیہ سعید انسٹاگرام)

وہ سمجھتی ہیں کہ ’ایک دم سے تو کوئی بھی اداکار یہ کمال ہنر نہیں دکھا سکتا۔ یہ فن سیکھنے کے لیے نشیب و فراز سے گزرنا پڑتا ہے ،غلطیوں سے سیکھنا پڑتا ہے، اچھے اساتذہ اور اچھے سکرپٹ کسی بھی اداکار کو بہت کچھ سکھا دیتے ہیں۔‘
ثانیہ سعید کہتی ہیں کہ الگ الگ نقطہ نظر اور نظریات کے لیے اداکاروں کو اپنا دل دماغ کھلا رکھنے کی ضرورت ہوتی ہےاور یہی کسی بھی اداکار کا سب سے بڑا ایڈوانٹج ہوتا ہے اور یہ خاصا باقی کسی بھی فیلڈ میں کسی بھی پروفیشنل کے پاس  ہو نہ ہو ان کو فرق نہیں پڑتا۔
ثانیہ کے بقول سکرین پر جو بھی اچھی چیز نظر آرہی ہوتی ہے اس میں کسی ایک شخص نہیں بلکہ بہت سارے لوگوں کی محنت شامل ہوتی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ کسی خراب سکرپٹ میں آپ کہیں کہ سکرپٹ تو بکواس ہی تھا لیکن فلاں اداکار نے بہت کوشش کی بہت زور لگایا کہ وہ اپنی اداکاری سے کچھ بہتری لا سکے۔‘ 
جب ان سے پوچھا گیا کہ آج کل بننے والے ڈراموں کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا جاتا ہے کہ اس سے بہتر ڈرامے پہلے بنتے تھے تو پرانے ڈرامہ نگار کس طرح نئے لکھاریوں سے مختلف تھے، انہوں نے بتایا کہ ’کوئی اگر ماضی اور حال کے ڈراموں کا موازنہ کر کے تنقید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ پہلے ہمارے ڈرامے بہت اچھے تھے اب نہیں ہیں تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پرانے رائٹرز کا مسئلہ صرف لکھنے کا نہیں تھا وہ نظریاتی لوگ تھے وہ جو سوچتے تھے ان کی کوشش ہوتی تھی کہ لوگوں تک پہنچایا جائے۔‘

اداکارہ ثانیہ سعید کے بقول ثانیہ کے بقول سکرین پر جو بھی اچھی چیز نظر آرہی ہوتی ہے اس میں بہت سارے لوگوں کی محنت شامل ہوتی ہے (فوٹو: ثانیہ سعید ٹوئٹر)

انہوں نے کہا کہ ’پرانے لکھاریوں کو صرف مشہور ہونے کا شوق نہیں تھا ان کے اندر ایک وبال تھا کہ ان کی سوچ کیا ہے انہیں سنا جائے، حسینہ معین اور انور مقصود کے سکرپٹ پی ٹی وی پر تو بہت چلے لیکن باقی لوگوں کے ساتھ ان کی بات نہ بنی حالانکہ کے رائٹرز تو وہی تھے۔ بات آج یا کل کی نہیں ہے بس آ پ جس نظریے سے سوچتے ہیں اس سے ہٹ کر اگر آپ کو سوچنے پر مجبور کر دیا جائے تو یہی ڈرامہ ہے اور یہی ڈرامے کا کام ہے پھر وہ ڈرامہ آج کا ہو یا ماضی کا۔‘
ثانیہ سعید نے چونکہ سرمد کھوسٹ کے ساتھ کام بھی کیا ہے اس حوالے سے جب ان سے سوال ہوا تو انہوں نے کہا کہ سرمد اور کنول کھوسٹ میرے لیے فیملی کی طرح ہیں ان کے ساتھ کام کرکے بہت ہی زیادہ کمفرٹیبل رہتی ہوں ،سرمد کے ساتھ میں نے بہت ہی چیلنجنگ کام کیا ہے۔
کامیڈی کے حوالے سے اداکارہ کا ماننا ہے کہ اب کامیڈی لکھنے اور کرنے کا انداز زرا تبدیل ہو گیا ہے۔
محبت کے بارے میں ثانیہ کہتی ہیں کہ جس کو محبت پر یقین نہ ہو اسے سائیکالوجسٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور انہیں ایسے لوگوں سے ڈر لگتا ہے جو محبت پر یقین نہیں رکھتے۔ 

شیئر: