Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آرامکو کی ایل این جی ماڈل کے بعد بلیو ہائیڈروجن مارکیٹ پر نظر ہے

مملکت نے گذشتہ سال گرین ہائیڈروجن کے منصوبوں کی نقاب کشائی کی تھی۔ (فوٹو عرب نیوز)
آرامکوکی جانب سے بلیو ہائیڈروجن کی اس دہائی تک خاص پیمانے تک پیداوار شروع ہونے کا امکان نہیں۔ یہ پیداوار ایل این جی سیکٹر کے آپریٹنگ ماڈل کی پیروی کرے گی۔
عرب نیوز کے مطابق یہ پیشگوئی سعودی آرامکو کے چیف ٹیکنالوجی آفیسر احمد الخویطر نے پیر کے روز بلومبرگ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کی ہے۔
آج دنیا کی تقریباً 95 فیصد ہائیڈروجن براون یا گرے سمجھی جاتی ہے۔ یہ قدرتی گیس کی سٹیم ریفارمنگ، میتھین یا کوئلے سے گیسی فکیشن کے ذریعہ تیار کی جاتی ہے جب کہ اس کی آخری پراڈکٹ صاف ستھرا ایندھن ہوتا ہے۔
 یہ پیداواری عمل بڑی مقدار میں توانائی استعمال کرتا ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی نمایاں مقدار پیدا کرتا ہے۔
 نام نہاد بلیو ہائیڈروجن بھی براون ہائیڈروجن والا طریق کار ہی استعمال کرتی ہے تاہم یہ کاربن کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔
گرین ہائیڈروجن الیکٹرو لائسس کے ذریعے پانی کو آکسیجن اور ہائیڈروجن میں تقسیم کر کے گیس پیدا کرتی ہے اور قابل تجدید توانائی کے ساتھ اس عمل کو طاقتور بناتی ہے۔
آرامکو دنیا کی متعدد بڑی توانائی کمپنیوں میں سے ایک ہے جنہوں نے توانائی کے کم کاربن والے وسائل کی صلاحیت پر نظر رکھی ہوئی ہے۔

یہ پیشگوئی سعودی آرامکو کے چیف ٹیکنالوجی آفیسر احمد الخویطر نے کی ہے۔ (فوٹو بلومبرگ)

احمد الخویطر نے کہاکہ جب  بلیو امونیا اور کم کاربن ہائیڈروجن کی طلب سامنے آئے گی تو ہم ان سرمایہ کاریوں کو دیکھیں گے۔ان کا کہنا ہے کہ 2030 سے پہلے اس کے اضافے پر کام نہیں ہوگا۔
ایل این جی انڈسٹری پہلے آف ٹیک معاہدہ کرتی ہے اور پھر سرمایہ کاری کرتی ہے لہٰذا جب آپ واضح آف ٹیک پیمانے کے تجارتی معاہدے کر لیں تو سمجھ لیں کہ آپ پیداوار اور تبادلوں کی ضروریات  میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے پانچ سے چھ سال کے سرمائے کے سائیکل کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں بڑے پیمانے پر ہائیڈروجن کے متعدد پراجیکٹس کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔

مشرق وسطیٰ نے سبزہائیڈروجن معیشت میں کلیدی پوزیشن سنبھا ل لی ہے۔ (فوٹو عرب نیوز)

حال ہی میں مصرنے کہا ہے کہ وہ قابل تجدید توانائی سے چلنے اور الیکٹرولائسس کے ذریعے ہائیڈروجن بنانے والے منصوبے میں 4 ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کرے گا۔
عمان نے آئندہ 27 برسوں کے اندر دنیا کے سب سے بڑے گرین ہائیڈروجن پلانٹ کی تیاری کا منصوبہ بنایا ہے جو 25 گیگا واٹ سولر اور ونڈ کے  لیے تیارکیا جائے گا۔
واضح رہے کہ دبئی نے مئی میں صنعتی پیمانے پر اس خطے کے پہلے شمسی توانائی سے چلنے والے گرین ہائیڈروجن پلانٹ کا آغازکیاجو سیمنز انرجی اور دبئی الیکٹریسٹی اینڈ واٹر اتھارٹی نے تعمیر کیا ہے ۔
ابوظبی نے بھی ایک ارب ڈالرکے منصوبوں کا اعلان کیا  ہےجس میں 40 ہزار ٹن گرین ہائیڈروجن سے 2لاکھ ٹن گرین امونیا تیار کرنے کی گنجائش ہے۔

یہ پیداوار ایل این جی سیکٹر کے آپریٹنگ ماڈل کی پیروی کرے گی۔ (فوٹو عرب نیوز)

سعودی عرب نے گذشتہ سال جولائی میں گرین ہائیڈروجن سہولت کے لئے منصوبوں کی نقاب کشائی کی تھی جو 4 گیگا واٹ ہوا اور شمسی توانائی سے چلنے والا اس وقت کا دنیا کا سب سے بڑا منصوبہ تھا۔
5ارب ڈالر پلانٹ ایئر پراڈکٹ، اے سی ڈبلیو اے پاور اور نیوم  کی جانب سے تعمیر کیا جائے گا جو ایک دن میں 650 ٹن گرین ہائیڈروجن تیار کرنے کی صلاحیت کا حامل ہوگا۔ یہ ہائیڈروجن ایندھن سے چلنے والی 20 ہزار بسوں کو رواں رکھنے کے لئے کافی ہوگی۔
مشرق وسطیٰ نے سبزہائیڈروجن معیشت میں کلیدی کردار ادا کرنے کی  پوزیشن سنبھا ل لی ہے۔ اس نے ہوا اور شمسی توانائی کی صلاحیتوں نیز یورپی اور ایشیائی مارکیٹوں کے مابین اپنی سٹریٹجک حیثیت سے فائدہ اٹھانا شروع کر دیا ہے۔
 

شیئر: