Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کشمیر الیکشن: اپوزیشن کے دھاندلی کے بیانیے میں کتنی جان ہے؟

غیرسرکاری غیرحتمی نتائج کے مطابق تحریک انصاف نے 25 نشتستوں کے ساتھ واضح کامیابی حاصل  کر لی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اتوار کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں وفاق کی حکمران جماعت تحریک انصاف کی واضح کامیابی کے بعد مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے دھاندلی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
غیرسرکاری غیرحتمی نتائج کے مطابق تحریک انصاف نے 25 نشتستوں کے ساتھ واضح کامیابی حاصل  کر لی ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے 11 جبکہ مسلم لیگ ن نے چھ نشستیں حاصل کی ہیں۔
الیکشن سے قبل مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کشمیر میں بھرپور انتخابی مہم چلائی تھی اور بڑے بڑے جلسوں سے خطاب بھی کیا تھا تاہم انتخابات میں ان کی جماعت کی تیسری پوزیشن کے بعد مریم نواز نے اعلان کیا ہے کہ وہ انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کریں گی۔
اپنے ٹویٹ میں مریم نواز نے کہا کہ ’میں نے نتائج تسلیم نہیں کیے ہیں اور نہ کروں گی۔ میں نے تو 2018 کے نتائج بھی تسلیم نہیں کیے اور نہ اس جعلی حکومت کو مانا ہے۔ ورکر اور ووٹرز کو شاباش دی ہے۔ اس ’بے شرم دھاندلی‘ پر کیا لائحہ عمل ہو گا، جماعت جلد فیصلہ کرے گی۔‘
یاد رہے کہ اس سے  قبل مریم نواز نے انتخابی مہم کے دوران حویلی میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ الیکشن چوری ہوا تو نتائج نہیں مانیں گے اور کشمیریوں کو شاہراہ دستور پہنچنے کی کال دیں گے۔
تاہم سوموار کو اس رپورٹ کے فائل ہونے تک ایسی کوئی کال نہیں دی گئی۔
دوسری جانب پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ’پی ٹی آئی نے آزاد کشمیر کے الیکشن میں تشدد اور دھاندلی کا سہارا لیا۔ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کی جانب سے الیکشن کی ضوابط کی خلاف ورزی پر کارروائی میں ناکام رہا لیکن اس کے باوجود پیپلز پارٹی نے تین سے بڑھا کر اپنی نشستیں 11 کر لیں اور اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ پی پی پی آزاد کشمیر کی جانب سے اچھا مقابلہ کرنے پر مجھے فخر ہے۔‘

’بڑے جلسے دھوکہ دے دیتے ہیں‘

اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ بڑے جلسے کئی دفعہ دھوکہ دیتے ہیں۔ عوام کی بڑی تعداد آخری وقت تک فیصلہ نہیں کرتی تو ایسے لوگ ہر کسی کے جلسے میں چلے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ ویسے بھی تماشا دیکھنے چلے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ کرشماتی شخصیات کی وجہ سے جلسوں میں آجاتے ہیں مگر یہ ثبوت نہیں کہ لوگ ووٹ بھی دیں گے۔
’بعض اوقات لوگ بہت سیلف سنٹرڈ (خود غرض ) ہو کر ووٹ دیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ان کے پسندیدہ رہنما اپوزیشن کے ہوں مگر وہ مرکزی حکومت سے اپنے کام کروانے کے لیے حکومتی جماعت کو ووٹ دیں۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے ممکن ہے بغیر دھاندلی کے بھی الیکشن کے نتائج یہی ہوں۔‘
سوموار کو وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشید احمد سے جب سوال کیا گیا کہ بڑے بڑے جلسوں کے باجود مسلم لیگ نواز کشمیر میں کیسے ہار گئی تو انہوں نے کہا کہ جلسوں سے کبھی ووٹ کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
’جلسے تو شورش کاشمیری اور مذہبی رہنما عطا اللہ شاہ بخاری کے بھی بہت بڑے بڑے ہوتے تھے مگر ووٹ کا نظام الگ ہوتا ہے۔ جلسے کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتے۔‘

مریم نواز نے کہا کہ انہوں نے الیکشن کے نتائج تسلیم نہیں کیے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

دھاندلی کے بیانیے میں وزن نہیں: تجزیہ کار

سیاسی تجزیہ کار زاہد حسین کہتے ہیں کہ اپوزیشن کے کشمیر انتخابات کے حوالے سے دھاندلی کے بیانیے میں وزن بالکل نہیں۔ جس طرح ماضی کے الیکشن تھے اسی طرح یہ بھی انتخابات تھے۔
انہوں نے گزشتہ انتخابات کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب پیپلز پارٹی کی وفاق میں حکومت تھی تو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں وہی جماعت فاتح ہوئی مگر جب 2016 میں مرکز میں مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تو پیپلز پارٹی کو کشمیر سے صرف تین سیٹیں ملیں جب کہ مسلم لیگ نواز 31 نشستوں پر جیتی۔
 اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے زاہد حسین نے کہا کہ کشمیر کے انتخابات میں بڑا اہم پہلو یہ ہوتا ہے کہ مرکز میں کس کی حکومت ہے اور انتخابات کے نتائج کوئی غیر متوقع بھی نہیں کیونکہ اس سے قبل گیلپ سروے بھی یہی پیش گوئی کر رہا تھا اور مقامی صحافی بھی۔
ہمارے ہاں عادت ہے کہ جو پارٹی جیت نہ سکے وہ دھاندلی کا الزام عائد کر دیتی ہے مگر کوئی ایسے واضح شواہد نہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے۔‘

کشمیر الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی نے 11 نشستیں حاصل کی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے اردو نیوز کو بتایا کہ دھاندلی کئی سطح ہر ہوتی ہے۔
’اگر تو اس بات کو دھاندلی مانا جائے کہ وفاقی حکومت نے اپنا اثر رسوخ استعمال کر کے کشمیر میں بااثر لوگوں کو توڑ کر اپنی پارٹی میں شامل کیا ہو گا تو ایسا تو ہوا ہے تاہم یہ ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ ہے اور نارمل ہے۔ حکومتی جماعت اپنا اثر رسوخ استعمال کر کے مضبوط امیدواروں کو توڑ لیتی ہے اس حد تک تو کہا جا سکتا ہے مگر یہ کہا جائے کہ الیکشن والے دن ووٹوں کی ہیراپھیری ہوئی تو ایسے کوئی شواہد نہیں ہیں۔‘ 

شیئر: