Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ترین گروپ کے رکن پنجاب اسمبلی نذیر چوہان نے یُوٹرن کیوں لیا؟

ترین گروپ کے راجہ ریاض کے مطابق نذیر چوہان دودھ پیتے بچے نہیں کہ ان کو کسی نے گمراہ کیا۔ فوٹو: نذیر چوہان ٹوئٹر
پاکستان کی حکمران جماعت تحریک انصاف کے پنجاب سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی نذیر چوہان نے جہانگیر ترین گروپ سے اعلان لا تعلقی کر دیا ہے۔ جیل سے نکلتے ہی انہوں نے نہ صرف اعلان لا تعلقی کیا بلکہ جہانگیر ترین کو تنقید کا بھی نشانہ بنایا۔
کیا جہانگیر ترین کا پاور گروپ کمزور پڑ چکا ہے؟
نذیر چوہان پاکستانی میڈیا کی خبروں میں اس وقت آنا شروع ہوئے جب انہوں نے جہانگیر ترین کے خلاف بننے والے ایف آئی اے کے مقدمات کا ذمہ دار وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر کو ٹھہرایا۔ جب جہانگیر ترین کے گھر پر پہلی بار ان کے ہم خیال ارکان اسمبلی اکٹھے ہوئے تو ان میں بھی نذیر چوہان صف اول میں تھے۔
شہزاد اکبر نے ان کے خلاف انہی دنوں میں ایک مقدمہ درج کروایا جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ نذیر چوہان کے بیانات سے ان کی اور ان کے خاندان کے افراد کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
اس مقدمے میں گرفتاری کے بعد ان پر یکے بعد دیگرے تین مقدمات بنائے گئے۔ اسی دوران ہی انہوں ںے ایک ویڈیو بیان کے ذریعے شہزاد اکبر سے معافی مانگ لی جبکہ شہزاد اکبر نے ان کے خلاف مقدمات واپس لے لیے جس کے نتیجے میں ان کی رہائی ممکن ہوئی۔
نذیر چوہان کی گرفتاری کے بعد جہانگیر ترین کے گھر پر ہم خیال اراکین کا دو مرتبہ اکٹھ ہوا جس میں انہوں نے اس گرفتاری کی مذمت کی تاہم اسی دوران ہی نذیر چوہان نے اس گروپ سے لاتعلقی کر دیا اور اس گروپ کے ساتھ وابستگی کو سیاسی غلطی قرار دیا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق نذیر چوہان کے ترین گروپ سے لاتعلقی کے اعلان کے بعد اس گروپ کی پارٹی کے اندر حیثیت کمزور ہوئی ہے۔
سیاسیات کے پروفیسر رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں فصلی بٹیروں کی ہمیشہ ہی اکثریت رہی ہے۔ اور یہ افراد اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سیاسی فیصلے کرتے ہیں۔ نذیر چوہان کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ترین گروپ کا مستقبل ویسا نہیں ہے جیسا انہوں نے سوچا تو وہ بس ایک بہانے کی تلاش میں تھے موقع ملتے ہی انہوں نے اعلان برات کر دیا۔ ان کی سیاست بس اتنی ہی ہے۔‘
تحریک انصاف کے ایک رہنما نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’فیاض الحسن چوہان نے شہزاد اکبر اور نذیر چوہان کی صلح میں اہم کردار ادا کیا۔ اور ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ وہ واپس آ گئے۔ پارٹی نے بھی خیر سگالی کا مظاہرہ کیا۔ صلح کی کوشش ان کی دوبارہ گرفتاری کے بعد شروع ہوئی۔ ایف آئی اے حراست میں انہوں نے شہزاد اکبر سے متعدد بار فون پر بات بھی کی۔‘

نذیر چوہان ٹی وی پروگرامز میں ترین گروپ کی ترجمانی کرتے رہے ہیں۔ فوٹو: نذیر چوہان ٹوئٹر

صحافی اجمل جامی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’نذیر چوہان کے یو ٹرن سے ترین گروپ کو شدید زک پہنچی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب یہ گروپ وجود میں آیا تو ٹی وی پروگراموں میں موقف لینے کے لیے جب گروپ سے رابطہ کیا جاتا تو آگے سے نذیر چوہان کا نام دیا جاتا کہ وہ نمائندگی کریں گے۔ وہ تو ماوتھ پیس(ترجمان) تھے اس گروپ کے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو اس گروپ کی تیسری میٹنگ میں تمام اراکین سے قرآن پر وفاداری کے حلف لیے گیے تھے تو اس بات کی تصدیق بھی میڈیا کو نذیر چوہان نے ہی کی تھی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’چاہے مقدمات کا دباؤ ہو یا مستقبل میں کوئی اہم عہدہ ملنے کی یقین دہانی، وجہ کوئی بھی ہو حکمران جماعت نے اپنے پتے ٹھیک کھیلے ہیں اور اس کا انہیں فائدہ ہوا ہے۔‘
نذیر چوہان کے بیان پر ترین گروپ کے رکن قومی اسمبلی راجہ ریاض نے کہا ہے کہ ’وہ اپنی مرضی سے گروپ میں آئے تھے کسی نے زبردستی نہیں لایا۔‘
راجہ ریاض کے مطابق نذیر چوہان دودھ پیتے بچے نہیں کہ ان کو کسی نے گمراہ کیا۔ ’جذباتی آدمی ہے، منع کیا تھا کہ مذہبی معاملات پر بیان بازی سے گریز کریں۔‘

شیئر: